بلوچستان حکومت نے کفایت شعاری کے اعلان کے باوجود کتنی نئی گاڑیاں خریدنے کا ٹھیکہ دیا؟
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)بلوچستان حکومت نے کفایت شعاری کے دعوے کے باوجود سابق نگران وزرا اور مشیروں سے گاڑیاں واپس لینے کی بجائے 55 نئی گاڑیاں خرید نے کے لیے کمپنی کو ٹھیکہ دے دیا۔
بلوچستان کے محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن کی 38گاڑیاں سابق نگران وزرا اور مشیروں جبکہ 5 گاڑیاں بااثر افراد کے پاس ہونے کا انکشاف ہوا ہے،صوبائی حکومت 10ماہ گزرنے کے باوجود یہ گاڑیاں واپس نہیں لے سکی۔
وی نیوز کو موصول ہونے والے دستاویزات کے مطابق محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن کے پاس مجموی طور پر 527 گاڑیاں ہیں ان گاڑیوں میں سے 502 فعال اور 25 غیر فعال ہیں، 38گاڑیاں پچھلے 10ماہ سے سابق نگران حکومت کے وزرا اور مشیروں کے قبضے میں ہیں جبکہ5 گاڑیاں بااثر افراد کے پاس ہیں جو واپس نہیں لی جا سکی ہیں۔
دستاویزات کے مطابق77گاڑیاں محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی کے افسران کے پاس، 21 گاڑیاں چیف سیکریٹری آفس، 44گاڑیاں وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ، 47گاڑیاں بلوچستان ہاؤس اسلام آباد اور کراچی کے زیر استعمال ہیں۔
اسی طرح محکمے کی 166گاڑیاں دیگر محکموں، 44کمشنر ز اور ڈی سیز کے پاس ہیں۔ محکمے کی 250گاڑیوں پر سالانہ 18کروڑ روپے کا فیول اور مرمت پر سالانہ 7کروڑ روپے کے اخراجات آتے ہیں جو حکومت بلو چستان صوبے کے وسائل سے ادا کر رہی ہے تاہم سابق نگران وزرا اور مشیران سمیت باثراد کی جانب سے تاحال گاڑیاں واپس نہیں لی گئیں ۔
دوسری جانب بلو چستان اسمبلی نے 23کروڑ روپے سے زیادہ مالیت کی 55 نئی گاڑیاں خریدنے کاٹھیکہ دے دیا۔
وی نیوز کو مو صول ہونے والی دستاویزات کے مطابق بلوچستان اسمبلی کی جانب سے افسران کے لیے 2024ماڈل کی 1000سی سی کی 55گاڑیاں خریدنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے بعد گاڑیوں کی خریداری کے لیے ایک مقامی کمپنی کو 23کروڑ 34لاکھ 20ہزار روپے کا ٹھیکہ دے دیا گیاہے۔
بلوچستان اسمبلی کو یہ گاڑیاں 42لاکھ 44ہزار روپے فی گاڑی کے حساب سے فراہم کی جائیں گی۔ بلوچستان اسمبلی سیکرٹریٹ نے گاڑیاں سپلائی کرنے والی کمپنی کو 25جنوری 2025تک گاڑیاں فراہم کرنے کی ڈیڈلائن بھی دے دی گئی ہے۔
واضح رہے کہ بلوچستان حکومت نے صوبے میں مالی مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے کفایت شعاری مہم کے تحت اخراجات کو محدود کرنے کا اعلان کر رکھا ہے جبکہ اس سے قبل بلوچستان اسمبلی میں افسران کو مالکاناحقوق پر گاڑیاں فراہم کرنے کا منصوبہ شروع کیا گیا تھا جس کی رقم کٹوتی افسران کی تنخواہوں سے کی جاتی تھی۔
صوبے کے سینیئر صحا فیوں کا مؤقف ہے کہ بلو چستان کے وسائل کا ہر آنے والی حکومت یوں ہی بے دریغ استعما ل کر تی ہے کروڑوں روپے گاڑیوں کی خریداری ، منٹیننس اور پیٹرول اور ڈیزل کی مد میں خرچ ہو جا تے ہیں جبکہ ہر آنے والی صوبائی حکومت فنڈز کی کمی کا رونا روتی ہے تاہم اگر یہ یہی کروڑوں روپے صوبے میں تعلیم اور صحت کے شعبے میں ایمان داری سے خرچ کیے جائیں تو صوبے کی تقدیر ہی بدل جائے۔