سول نافرمانی تحریک کیا ہوتی ہے، کیا یہ مؤثر طریقہ احتجاج ہے؟
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی جانب سے ایک بار پھر سے 14 دسمبر کے بعد سول نافرمانی تحریک چلانے کی دھمکی دیدی گئی ہے۔
راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے عمران خان نے کہا کہ 9 مئی اور 26 نومبر واقعات کی عدالتی تحقیقات نہ کرائی گئیں تو 14 دسمبر سے سول نافرمانی کی تحریک چلائی جائے گی، جس کے پہلے مرحلے میں بیرون ملک پاکستانیوں سے غیر ملکی ترسیلاتِ زر نہ بھیجنے کا کہا جائے گا۔
اس سے قبل 2014 میں 126 دن کے دھرنے کے دوران بھی عمران خان سول نافرمانی کا اعلان کر چکے اور کنٹینیر پر کھڑے ہو کر انہوں نے بجلی کے بلوں کو آگ لگائی تھی۔ تاہم اس کے کچھ ہی دنوں بعد میڈیا رپورٹس کے مطابق انہوں نے بجلی کا بل جمع کروا دیا تھا جس سے ان کی سول نافرمانی تحریک کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔
اسی دھرنے کے دوران عمران خان نے بیرونِ ملک پاکستانیوں سے کہا کہ وہ بینکوں کی بجائے حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے رقوم پاکستان بھیجیں تاکہ حکومت کو فارن ایکسچینج نہ ملے۔
سول نافرمانی تاریخ عالم، تاریخ برصغیر اور تاریخ پاکستان میں کوئی انوکھا واقعہ نہیں اور اس طرح کی تحاریک چلانے کے اعلانات ہوتے رہے لیکن ماسوائے چند ایک کے زیادہ تر ایسی تحاریک بے اثر رہیں۔
سول نافرمانی کیا ہوتی ہے؟
سول نافرمانی احتجاج کا ایک پُرامن طریقہ ہے جس کے ذریعے حکومت سے اختلاف رکھنے والے لوگ حکومت کو ہر قسم کو ٹیکس دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔ ایسی مصنوعات اور ایسی خدمات کے استعمال سے گریز کرتے ہیں جس سے سرکار کو فائدہ پہنچے۔
سول نافرمانی صرف ٹیکس نہ دینے کا نام نہیں بلکہ حکومتی قوانین کے برعکس کام کرنے کا بھی نام ہے جیسا کہ سرکاری کی جانب سے جہاں اجتماع پر پابندی ہو وہاں احتجاج کرنا، شاہرائیں بند کرنے پر پابندی ہے تو شاہرائیں بند کرنا وغیرہ۔ یہ عمل اگر عوامی دائرہ کار میں وسیع تر ہو جائے تو اس سے حکومت کو مشکلات کا شکار کیا جا سکتا ہے۔
سول نافرمانی اور پاکستانی تاریخ
1958 سے 1969 کے دوران وکلاء، طلباء اور سٹوڈنٹس یونینز کی طرف سے ایوب خان کی فوجی حکومت کے خلاف مختلف مواقع پر سول نافرمانی تحاریک کی کالز دی گئیں۔
1970 کے انتخابی نتائج کو قبول کرنے کے لیے اس وقت مشرقی پاکستان کے لیڈر شیخ مجیب الرحمٰن نے سول نافرمانی کی کال دی تھی۔
70 کی دہائی میں پاکستان نیشنل الائنس نے ذوالفقار علی بھٹو حکومت کے خلاف احتجاج کے لیے مختلف مواقع پر سول نافرمانی کی کالز بھی دیں۔
1981 سے 1986 کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت میں مختلف سیاسی جماعتوں کے اتحاد برائے بحالیٔ جمہوریتکی طرف سے سول نافرمانی کی تحریک چلانے کے اعلانات ہوتے رہے۔
سول نافرمانی کی حالیہ دور سے مثالیں
2011 میں امریکیوں نے معاشی عدم مساوات کی طرف توجہ دلانے کے لیے امریکی قوانین کے برخلاف وہاں کے مشہور کاروباری مقام وال سٹریٹ پر دھرنا دیا۔
2014 میں شروع ہونے والے احتجاج ’بلیک لائف میٹرز‘ بھی سرکاری قوانین کے برخلاف عوامی شاہرائیں بند کر کے احتجاج ہوتا رہا۔
سول نافرمانی کی قدیم تاریخ
441 ق م: یونان کے مشہور اور قدیم ٹریجڈی رائٹر (المیہ نگار) سوفوکلیز کا ڈرامہ ایڈیپس ریکس جو یورپین ادب میں کافی معروف ہے، اس میں سابق بادشاہ پولینائسز کی بہن انٹیجنی بادشاہ کریون کے حکم کے خلاف اپنے بھائی کی موت کے بعد اس کی آخری رسومات ادا کرتی ہے جس پر اسے سزا دی جاتی ہے لیکن اس واقعے کو سول نافرمانی میں شمار کیا جاتا ہے۔
399 ق م: سقراط نے ایتھنز کی حکومت کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے نظریات کا پرچار جاری رکھا۔
سول نافرمانی کی جدید تاریخ
1846؛ ہینری ڈیوڈ تھورو ایک امریکی فطرت نگار اور ناول نگار تھا جس کی کتاب والڈن بہت مشہور ہوئی۔ جیمز ناکس پوک جب امریکی صدر تھے تو ہینری ڈیوڈ تھورو نے ناانصافی پر مبنی قوانین کی خلاف ورزی کے لیے پُرامن احتجاج سول نافرمانی کا طریقہ اپنایا۔ انہوں نے امریکہ کی میکسیکو میں جنگ کے لیے ٹیکس دینے سے انکار کر دیا۔
1915۔1947: اس عرصے کے دوران برصغیر کے معروف سیاسی لیڈر گاندھی جی نے کئی مواقع پر سول نافرمانی تحاریک چلائیں جن میں ان کا 1930 میں کیا گیا سالٹ مارچ اور 1942 میں انگریزو! بھارت چھوڑ دو تحریک شامل تھی۔ اس کے علاوہ انہوں نے لوگوں کو غیر ملکی کپڑا خریدنے سے منع کرتے ہوئے انہیں بھارت میں چرخے پر بنا ہوا کپڑا پہننے کی ترغیب دی۔
1950۔1960: اس عرصے کے دوران امریکا میں سیاہ فام سیاسی لیڈر مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نے سیاہ فام حقوق کی جدوجہد کے لیے کئی اختراعات کیں، جن میں دھرنا، بائیکاٹ، اور لانگ مارچز شامل تھے۔
1940۔1990: اس عرصے کے دوران جنوبی افریقہ میں نیلسن مینڈیلا اور ڈیسمنڈ ٹوٹو نے نسل پرستانہ حکومت کے خلاف سول نافرمانی تحاریک چلائیں۔