تحفظات دور نہ ہوئے، کیا پیپلز پارٹی حکومت کے لیے خطرہ بن سکتی ہے؟
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)عام انتخابات کے نتائج کے بعد کوئی بھی سیاسی جماعت اس پوزیشن میں نہ تھی کہ وہ اپنی حکومت قائم کرسکے، پاکستان مسلم لیگ ن نے پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، ق لیگ، استحکام پاکستان پارٹی اور دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت قائم کی، تاہم حکمراں اتحاد کی بڑی جماعت پیپلز پارٹی نے وزارتیں لینے سے انکار کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ حکومت کا حصہ نہیں بنے گی۔
موجودہ حکومت کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج تو شروع دن سے جاری ہیں، اب اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بھی حکومت کو دینی مدارس کی رجسٹریشن کے بل کی منظوری کے لیے 17 دسمبر تک کی مہلت دی ہوئی ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے اعلان کیا ہے کہ اگر بل منظور نہ ہوا تو ’حکومت مردہ باد تحریک‘ شروع کردی جائے گی اور اسلام آباد کی جانب مارچ بھی کیا جاسکتا ہے۔
گزشتہ چند روز سے حکمران اتحاد کی دوسری بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے تحفظات دور نہ ہونے سے متعلق خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں، اس حوالے سے 2 روز قبل بھی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی رابطہ کمیٹی کے درمیان ملاقات ہوئی، تاہم پیپلز پارٹی کے تحفظات تاحال برقرار ہیں۔ اس ملاقات میں حکومت کی جانب سے ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار، مشیر وزیراعظم رانا ثنااللہ اور وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ سمیت دیگر رہنما موجود تھے جبکہ پیپلز پارٹی کی جانب سے راجہ پرویز اشرف، نوید قمر، شیری رحمان، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی، گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر، گورنر خیبرپختنخوا فیصل کریم کنڈی، سابق گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود اور علی حیدر گیلانی شریک تھے۔
یہ ملاقات 3 گھنٹے تک جاری رہی جس میں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے مسلم لیگ ن کو مختلف امور پر اپنے تحفظات سے آگاہ کیا، جس پر اسحاق ڈار نے تحفظات دور کرنے کے لیے پیپلز پارٹی سے وقت مانگ لیا ہے۔
هم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ پیپلز پارٹی کو حکومت سے کیا تحفظات ہیں اور کیا یہ تحفظات دور نہ ہونے پر پیپلز پارٹی حکومت کے لیے کوئی خطرہ بن سکتی ہے؟
خدا نہ کرے وہ وقت آئے جب ہمیں ڈیڈ لائن دینا پڑ جائے، قمر زمان کائرہ
پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما قمرالزمان کائرہ نے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی ہی وہ جماعت ہے جس کے ساتھ ملنے سے ن لیگ نے وفاق میں حکومت قائم کی تھی، پیپلز پارٹی نے حکومت سے کوئی نئے مطالبات نہیں کیے ہیں، یہ وہی 25 مطالبات ہیں جو حکومت قائم ہونے سے قبل سامنے رکھے گئے تھے اور ان مطالبات کو پورا کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی گئی تھی، ہمارا مطالبہ ہے کہ ان مطالبات کو منظور کیا جائے، مطالبات میں صوبائی حکومتوں اور انتظامیہ سے متعلق امور شامل ہیں۔
قمر الزمان کائرہ نے کہا کہ پیپلز پارٹی اس وقت تو حکومت کے لیے کوئی خطرہ بن کر سامنے نہیں آ رہی، ہم حکومت کی تشکیل سے قبل ہونے والے معاہدے پر عملدرآمد کے لیے حکومت کو یادہانی کرا رہے ہیں، خدا نہ کرے کہ وہ وقت آئے کہ جب ہمیں حکومت کو کوئی ڈیڈ لائن دینا پڑ جائے، مذاکراتی کمیٹیوں کی بیٹھک جاری ہے، امید کرتے ہیں کہ معاملات حل ہو جائیں گے۔
پیپلز پارٹی کے تحفظات دور کیے جائیں گے، طارق فضل چوہدری
پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی حکمراں اتحاد میں شامل ضرور ہے لیکن وہ ایک الگ سیاسی جماعت بھی ہے، اتحادیوں کے درمیان ہر بات پر اتفاق ہونا ضروری نہیں ہے، کبھی کبھار کچھ اختلافات ہوجاتے ہیں، پیپلز پارٹی 2 صوبوں میں حکومت کررہی ہے اور پنجاب میں بھی کچھ اہم عہدوں پر پیپلز پارٹی کے لوگ فائز ہیں، اگر پیپلز پارٹی کے کچھ تحفظات ہیں تو انہیں ضرور دور کیا جائے گا۔
ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے پیپلز پارٹی کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے سخت ہدایات دی ہوئی ہیں، یہی وجہ ہے کہ ڈپٹی وزیراعظم کی سربراہی میں حکومتی وفد پیپلز پارٹی کے وفد سے ملاقاتیں کررہا ہے، اگر دونوں جماعتوں کے درمیان کوئی دوریاں پیدا ہوئی ہیں تو ان کو جلد دور کرلیا جائے گا۔
ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے مزید کہا کہ جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان حکومت کے لیے قابل احترام ہیں، حکومت مولانا فضل الرحمان کے مطالبات پر بھی غور کررہی ہے اور اس سلسلے میں مذاکرات بھی جاری ہیں، امید کی جاتی ہے کہ مولانا فضل الرحمان کے ساتھ معاملات کو بھی افہام و تفہیم سے حل کرلیا جائے گا اور مجھے یقین ہے کہ 17 دسمبر سے پہلے مولانا فضل الرحمان کو منا لیا جائے گا۔