یورپ کے لیے پروازیں، پی آئی اے کا کڑا امتحان
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)یورپی ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی (ایسا) کی جانب سے کلین چٹ ملنے کے بعد پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے) نے تقریباً 4 سال بعد 10 جنوری 20024 سے اسلام آباد اور پیرس کے درمیان ہفتے میں 2 پروازیں چلانے کا اعلان کر کے پاکستانی قوم کے دل جیت لیے ہیں۔
ترجمان ’پی آئی اے‘ کے مطابق ابتدائی مرحلے میں ہفتہ وار 2 پروازیں چلائی جائیں گی جن میں بتدریج اضافہ کیا جائے گا۔ پی آئی اے اپنے بی 777 طیارے استعمال کر ے گی ۔
اگرچہ پی آئی اے انتظامیہ اور آپریشنل ٹیموں نے ’ای اے ایس اے‘ کی جانب سے یورپ کے لیے پاکستان کی پروازوں پر سے پابندی اٹھائے جانے کے بعد پہلا بین الاقوامی آپریشن شروع کرنے کے لیے ضروری ہوم ورک کیا ہوگا، لیکن پھر بھی ہوا بازی کے مبصرین موجودہ B777 کو یورپ، یوکے اور یو ایس اے کے لیے استعمال کرنے پر بہرحال کافی مضطرب نظر آ رہے ہیں۔
مبصرین کےمطابق پی آئی اے کا بوئنگ 777 فلائٹ، جس کی اوسط عمر 20 سال ہے، واقعی تشویش کا باعث ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کو یورپ کے لیے پروازیں دوبارہ شروع کرنے میں جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے۔
دوسری جانب بیشتر مبصرین پی آئی اے کے فیصلے پرخوش بھی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ پی آئی اے نے پابندی کے دوران بہت کچھ سیکھا ہے اور اب اپنےموجودہ نظام کو یورپی یونین کے قوائد و ضوابط کے مطابق ہی اَپ ڈیٹ کیا ہو گا۔
پی آئی اے کے پرانے طیارے B777 پر تنقید کرنے والے ہوابازی کے ماہر ین تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ 20 سال پرانے ہوائی جہاز کی دیکھ بھال کے اخراجات میں اضافہ ہو گا اور ایندھن کی کارکردگی بھی متاثر ہو گی، جس سے اخراجات میں اضافے کے اندیشہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پرانے طیارے میں جدید سہولیات کا بھی فقدان ہو سکتا ہے جیسے کہ پاور آؤٹ لیٹس اور’یو ایس بی‘ پورٹس، اعلیٰ درجے کی روشنی کے نظام کی کمی، ہوا کے فلٹریشن سسٹم میں بہتری کا فقدان وغیرہ۔
ریٹائرڈ فلائٹ انجینیئر راشد خان کے مطابق پرانے ہوائی جہازوں کی کئی بار کی دیکھ بھال اور اپ گریڈیشن کی ضرورت پڑسکتی ہے تاکہ حفاظتی ضوابط کی تعمیل کو یقینی بنایا جاسکے۔
اسی طرع نئے طیاروں کے ماڈل عام طور پر زیادہ ایندھن کی بچت کرتے ہیں ، جس سے اخراجات بھی کم ہوتے ہیں، اس سے ’پی آئی اے‘ کے ماحولیاتی اثرات اور آپریٹنگ اخراجات کو بھی کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
پی آئی اے ان خدشات اور تحفظات کو دور کرکے سروسز کو مزید بہتر بنا سکتی ہے، مسافروں کے اطمینان کو بڑھا سکتی ہے اور مارکیٹ میں مسابقتی راہ ہموار کر سکتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 777 طیارے کے سینیئر ترین کپتان اور پی آئی اے کے ریٹائرڈ سینیئر ترین سیفٹی آفیسرز سے جب یہ سوال پوچھا گیا تو انہوں نے متفقہ طور پر کہا کہ جب پی آئی اے اپنے پرانے بوئنگ 777 طیارے یورپ اور برطانیہ بھیجے گی تو اسے کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
توسیعی رینج ٹوئن آپریشنز پرفارمنس کا معیار
ماہرین کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے پرانے 777 ہوائی جہاز توسیعی رینج ٹوئن آپریشنز پرفارمنس کی تازہ ترین ضروریات کو پورا نہ کر سکیں، جس سے ان کی مخصوص راستوں پر پرواز کرنے کی صلاحیت محدود ہو جائے یا انہیں طویل راستے اختیار کرنے کی ضرورت ہو، جس سے ایندھن کی کھپت اور پرواز کے اوقات میں اضافہ ہو۔
پرانے طیارے اکثر زیادہ شور پیدا کرتے ہیں، جس کی وجہ سے شور سے حساس یورپ کے ہوائی اڈوں پر کام کرتے وقت پابندیاں یا جرمانے لگ سکتے ہیں۔
یورپی یونین نے سخت ضوابط نافذ کر رکھے ہیں، جن کے تحت پی آئی اے کے پرانے ہوائی جہازوں کی وجہ سے اسے پروٹوکول پورا نہ کرنے پر جرمانے کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔
ماحولیاتی اثرات سے بچنے کے لیے اقدامات
’ایسا ‘ماحولیاتی اثرات سے بچنے کے لیے خصوصی ہدایات جاری کر سکتا ہے جس کے لیے ’پی آئی اے‘ کو اپنے پرانے ہوائی جہازوں کی دیکھ بھال اور یورپی حفاظتی معیارات کی تعمیل کو یقینی بنانے کے لیے اپنے جہازوں کو اَپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہو گی۔
گراؤنڈ ہینڈلنگ اور دیکھ بھال
پی آئی اے کو یورپ میں گراؤنڈ ہینڈلنگ اور جہازوں کی دیکھ بھال کے لیے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور ایسے انجینیئرز کو تلاش کرنا پڑے گا جو پرانے 777 طیارے کی مینٹیننس سے واقف ہوں اور ضروری مدد فراہم کر سکتے ہوں۔
مسافروں کی توقعات پر پورا اترنا
مسافروں کی توقعات پر پورا اترنے کے لیے پی آئی اے کو جہاز میں جدید سہولیات، آرام اور دوران پرواز تفریح کے زیادہ سے زیادہ انتظامات کے لیے اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ ہو سکتا ہے کہ پی آئی اے کے پرانے طیارے ان توقعات پر پورا نہ اتریں اس سے ممکنہ طور پر مسافروں کے اطمینان پر اثر پڑے۔
زیادہ ذمہ دارانہ اقدامات کی ضرورت
پی آئی اے کو اپنے پرانے ہوائی جہازوں کی بدولت زیادہ ذمہ دارانہ کردار کی ضرورت ہو گی اور حفاظتی خطرات سے بچنے کے لیے بیمہ پریمیم یا زیادہ سے زیادہ حفاظتی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا پڑ سکتاہے۔
عملے کی تربیت کی ضرورت
’پی آئی اے ‘ کو عملے کی تربیت بھی یورپی معیار پر کرنا ہوگی، اضافی تربیت اور یورپی قواعد و ضوابط، طریقہ کار اور فضائی حدود کی ضروریات سے واقفیت حاصل کرنا ہوگی۔
ریگولیٹری تعمیل کرنا ہو گی
پی آئی اے کو ریگولیٹری تعمیل بھی کرنا ہو گی، تمام متعلقہ یورپی ضابطوں بشمول حفاظت، سلامتی اور ماحولیاتی تحفظ سے متعلق لوازمات کی تعمیل کو یقینی بنانا ہوگا۔
ضروری ہے کہ پاکستان ایوی ایشن اتھارٹی کو شرمندگی سے بچنے اور منافع کمانے کے لیے برطانیہ، یورپی یونین اور امریکا کے لیے فلائٹ آپریشن کامیاب بنانے کے لیے کچھ نئے جہاز لیز پر حاصل کرے۔
کپتان آفتاب علی جو خلیج میں مقیم سینیئر ایوی ایشن ایکسپرٹ نے کہا ہے کہ پی آئی اے کو فضائی سروسز میں مقام بنانے کے لیے پائلٹس اور عملے کی تربیت بھی کسی معروف ادارے سے کرانی چاہیے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے سابق ڈائریکٹر سول ایوی ایشن اتھارٹی پاکستان محمد بھٹی کے مطابق انگلینڈ اور یورپ کے لیے فلائٹآپریشن پی آئی اے کے لیے ایک حقیقی امتحان ہوگا، پی آئی اے جو پہلے ہی مالی بحران کا شکار ہےکو اپنے طیاروں کو یورپی یونین کے میعار کے مطابق اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہو گی، بصورت دیگر خطرات لاحق رہیں گے۔
ادھر پاکستان ایوی ایشن اتھارٹی اور ’پی آئی اے‘ کے ذرائع ان تحفظات کو یقینی طور پر مسترد کر رہےہیں۔ ان کے مطابق ’ایسا‘ نے سخت ترین آڈٹ کے بعد پی آئی اے کو یورپی یونین کے لیے متفقہ طور پر اجازت دی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ’پی آئی اے‘ کے تمام جہاز دُنیا کے تمام ممالک میں فلائٹ آپریشن جاری رکھنے کے اہل ہیں۔