نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی ہوم ڈیلیوری کس طرح کی جارہی ہے؟
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاکستانی روپے کی قدر میں کمی اور ٹیکسز میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافے کے سبب گاڑیوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ملک میں 660 سی سی کی 4 سے 5 سال پرانی گاڑیوں کی قیمت 20 سے 30 لاکھ روپے کے درمیان جبکہ 10 سال پرانی گاڑیوں کی قیمت 12 تا 20 لاکھ روپے ہے۔ ایسے میں بڑھتی گاڑیوں کی قیمت کے سبب نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی خرید و فروخت میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
نان کسٹم پیڈ گاڑیاں غیر قانونی طور پر افغان سرحد سے پاکستان لائی جاتی ہیں جو بعد میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی سرحد سے ملک کے دیگر حصوں کو بھیجی جاتی ہیں۔ بلوچستان میں ان دنوں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی خرید و فروخت کا سلسلہ کھلے عام جاری ہے۔ شہر کے متعدد شورومز پر نان کسٹم پیڈ گاڑیاں موجود ہیں جبکہ نوجوان سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر بھی نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے اشتہارات لگا کر ان کو فروخت کر رہے ہیں۔ ایسے میں بلوچستان کے نوجوانوں نے ایک نئے کاروبار کا بھی آغاز کر دیا ہے جس کے تحت نان کسٹم پیڈ گاڑی کی ہوم ڈلیوری بھی شروع کر دی ہے۔
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے کاروبار سے منسلک شخص نے بتایا کہ سب سے پہلے نان کسٹم پیڈ گاڑیاں غیر قانونی طور پر افغانستان کی سرحد عبور کروا کر بلوچستان کے سرحدی علاقوں تک لائی جاتی ہیں جہاں خریدار پہلے ہی گاڑیوں کو خریدنے کے لیے موجود ہوتے ہیں کئی بار خریدار خود ان گاڑیوں کو مختلف راستوں سے پہلے کوئٹہ اور پھر ملک کے دیگر حصوں تک لے جاتے ہیں لیکن اس کے علاوہ چند نوجوان ایسے بھی ہیں جو نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی ہوم ڈیلیوری بھی کرتے ہیں۔ مقامی زبان میں اس عمل کو پونچھ کہا جاتا ہے۔ پونچھ کا کام کرنے والے نوجوانوں پہلے کسٹمر سے اس کی لوکیشن دریافت کرتے ہیں اور پھر گاڑی کی ہوم ڈلیوری کی جاتی ہے اور گاڑی مل جانے پر مذکورہ شخص پونچھ والے شخص کو گاڑی کی قیمت اور اس کو مذکورہ مقام تک پہنچانے کی اجرت دے دیتا ہے۔
نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے کاروبار سے منسلک ایک شخص نے بتایا کہ پونچھ پر کام کرنے والے افراد سرحد سے کوئٹہ لانے کے 20 سے 30 ہزار، کوئٹہ سے پنجاب لے جانے کے 60 سے 70 ہزار جبکہ اسلام آباد اور خیبر پختونخوا تک ان گاڑیوں کو پہنچانے کے ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے تک وصول کرتے ہیں۔ صوبے میں بڑھتی بیروزگاری کے سبب یہ کاروبار ہر گزرتے دن کے ساتھ پروان چڑھ رہا ہے۔
دوسری جانب پونچھ کا کام کرنے والے تیمور خان نے وی نیوز کو بتایا کہ ابتدا میں گاڑی کا آرڈر لیا جاتا ہے جس میں مذکورہ شخص اپنی من پسند گاڑی کا آرڈر دیتا ہے اور سب سے پہلے افغان سرحد سے گاڑی خریدی جاتی ہے جس کے بعد اسے کوئٹہ لایا جاتا ہے ایک 2 دن گاڑی کو کوئٹہ میں رکھ کر اسے مطلوبہ مقام پر منتقل کرنے کے لیے مکمل تیاری کی جاتی ہے۔ اس تیاری میں راستے میں آنے والی تمام چیک پوسٹوں کو پاس کرنے کا مخصوص ریٹ ہوتا ہے جو طے ہو جانے کے بعد چیک پوسٹوں پر یہ لوگ ہمیں ایک مقررہ وقت دیتے ہیں جس میں ہمیں اس چیک پوسٹ سے گاڑی پار کروانی ہوتی ہیں اگر مقررہ وقت میں گاڑی پار نہ کروائی جائے تو پھر پیسے لینے والا اہلکار اس بات کا ذمہ دار نہیں ہوتا ایسے راستے میں موجود تمام چیک پوسٹوں کو پیسے دے کر مطلوبہ مقام پر گاڑی پہنچا دی جاتی ہے جس کے لیے پونچھ کا کام کرنے والوں کو 30 سے 40 ہزار روپے بآسانی بچ جاتے ہیں جبکہ واپسی کا کرایہ بھی اکثر خریدار دے دیتا ہے۔
تیمور خان نے بتایا کہ صوبے میں بہت سے نوجوان اس کاروبار کو بڑھتی بیروزگاری کی وجہ سے اپنا رہے ہیں کام تو مشکل ہے لیکن اس میں منافع بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے لوگ اس کاروبار کی جانب کھنچے چلے آ رہے ہیں۔
حکومت بلوچستان سمیت کسٹم حکام روزانہ کی بنیاد پر نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی پکڑ دھکڑ کرتے ہیں لیکن چند کرپٹ اہلکاروں کی وجہ سے یہ کاروبار آج بھی جاری ہے۔