لائف انشورنس لینے والا شہری صرف چار اقساط کی ادائیگی کے بعد فوت ہوجائے تو اس کے لواحقین کو انشورنس کی پوری رقم دی جائیگی یا نہیں؟
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اسٹیٹ لائف انشورنس نے پالیسی کی رقم دینے میں جان بوجھ کر تاخیر کر دی ہے . انشورنس کمپنی کی جانب سے مرنے والے شہری پر الزام لگایا گیا تھا کہ اس نے فراڈ کی نیت سے پالیسی لیتے وقت حقائق چھپائے تاہم شہری کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ کے مطابق وہ قدرتی موت مرا اور اس کو کوئی بیماری نہیں تھی . انشورنس کمپنی نے الزام لگایا کہ مرنے والا شہری ذہنی معذور تھا اور نشہ کرتا تھا . عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ مرنے والے کا پوسٹمارٹم کرنے کی ضرورت بھی پیش نہیں آئی اس لیے اس کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ مانا جائے گا . عدالت نے کہا کہ پورے کیس میں کہیں بھی یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ مرنے والے نے پالیسی لیتے وقت اپنی بیماری چھپائی . عدالت کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ لائف انشورنس کی جانب سے بتائے گئے اعتراضات پالیسی سے مطابقت نہیں رکھتے، مرنے والے شہری نے اپنی پریمیم پالیسی کی 4 قسطوں کو ادا کیا جس کے بعد وہ انتقال کرگیا . مقدمے کے مطابق شہری محمد الیاس نے پالیسی میں اپنی غیر موجودگی میں بیوی کو نگران بنایا تھا، ورثا ء نے وقت پر اپنا حق لینے کے لیے تمام دستاویزات انشورنس کمپنی کو جمع کرائیں، کمپنی ٹربیونل نے غلط فہمی کی بنا ء پر شہری کے ورثا ء کی جانب سے دئیے گئے ثبوتوں کو غلط قرار دیا . کیس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد عدالت نے کمپنی کو مرنے والے کے ورثا ء کو رقم کی ادائیگی کرنے کاحکم دے دیا . . .