الیکٹرک وہیکلز کو قابل رسائی بنانا ضروری ہے، شیری رحمن


کراچی(قدرت روزنامہ)چیئرپرسن اسٹینڈنگ کمیٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمن نے پاکستان الیکٹرک وہیکل (EV) کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلیے انقلابی پالیسیوں اور سول سوسائٹی کی شمولیت کی اہمیت پر زور دیا۔
انھوں نے کہا کہ ماحولیاتی اقدامات میں کامیابی صرف اسی وقت ممکن ہے جب سماجی شعور اور شراکت داری کو فروغ دیا جائے۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان الیکٹرک وہیکل (EV) کانفرنس، جس کا موضوع “پائیدار مستقبل کی طرف تیزی سے منتقلی” تھا، کراچی میں کلائمٹ ایکشن سینٹر کے زیر اہتمام منعقد ہوئی۔
کانفرنس میں حکومت، صنعت، تعلیمی اداروں، اور مالیاتی شعبے کے نمائندے شریک ہوئے، شیری رحمان نے مزید کہا کہ الیکٹرک وہیکلز کو فائدہ مند اور قابل رسائی بنانا ضروری ہے، اگر بلند قیمتوں پر قابو پا کر آئی وی انقلاب آتا ہے، تو ہم بہت سے ممالک کے لیے رول ماڈل بن سکتے ہیں۔
مراعات کے بغیر نہ تو انڈسٹری تشکیل پاسکے گی اور نہ ہی صارفین خریدیں گے، مراعات کے بغیر کوئی پالیسی کامیاب نہیں ہوسکتی، کیوں کہ عوام اسی وقت اس کو قبول کرتے ہیں، جب عوام کو فائدہ پہنچتا ہے۔
گرین اکانومی تیزی سے ترقی کرتی اکانومی ہے، اور مستقبل اسی کا ہے، لیکن اس کا قابل رسائی ہونا ضروری ہے، انھوں نے پاکستان کے منفرد چیلنجز کے مطابق پالیسیوں کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہاکہ اسمارٹ نعرے کافی نہیں ہیں، ہمیں حقیقت پسندانہ، تیز رفتار پالیسیوں کی ضرورت ہے۔
کانفرنس کے اختتام پر ٹریفک میں فوسل فیول کے استعمال کو ختم کرنے کے پْرزور مطالبے کے ساتھ ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات پر زور دیا گیا۔
کانفرنس کے دوران ای وی انڈسٹری کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی، خاص طور پر نیو انرجی وہیکل پالیسی 2025 کے مسودے پر تفصیلی گفتگو ہوئی، جس میں اس کی خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے بہتری کے لیے تجاویز پیش کی گئیں۔
اس موقع پر ماہرین نے ای وی انڈسٹری کے اتحاد یا ایسوسی ایشن کے قیام کی ضرورت پر بھی تبادلہ خیال کیا، کانفرنس دو مراحل پر مشتمل تھی، جس کا دوسرا مرحلہ فروری 2025 میں لاہور میں ہوگا۔
کانفرنس میں مختلف پینل ڈسکشنز کا انعقاد ہوا، جن میں مالیاتی وسائل، مقامی مینوفیکچرنگ، اور انڈسٹری میں جدت کے مواقع پر بات چیت کی گئی۔
ماہرین نے اس بات پر زور دیا کہ ای وی مصنوعات کو عام لوگوں کے لیے سستا اور قابلِ رسائی بنایا جائے، تاکہ پائیدار ٹرانسپورٹیشن کی طرف منتقلی میں تیزی لائی جا سکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *