سال 2024 پاکستان کی معیشت کے لیے کیسا رہا؟
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)سال 2024 کو کئی اعتبار سے یاد رکھا جائے گا جس میں معیشت کے لیے کیے گئے اقدامات قابل ذکر ہیں کیوں کہ سال کے آغاز سے ہی ملک کئی طرح کے بحرانوں کی لپیٹ میں تھا جس میں یہاں تک خدشات ظاہر کیے گئے کہ ملک کسی بھی لمحے دیوالیہ ہو جائے گا۔
علاوہ ازیں ملک میں ڈالر کی ایسی قلت پیدا ہوئی کہ چیف آف آرمی اسٹاف کی ہدایت پر ڈالر مافیا کے خلاف آپریشن بھی کرنا پڑا۔
سال 2024 پاکستان کی معیشت کے لیے کیسا رہا اور اس کے سال 2025 پر کیا اثرات ہوں گے اس حوالے سے وی نیوز نے ماہرین سے ان کی رائے جاننے کی کوشش کی۔
ماہرین کیا کہتے ہیں؟
کراچی کے معروف تاجر محمد حنیف گوہر کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ مجموعی طور پر پاکستان کی معیشت اس وقت بہتر حالت میں نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کچھ سیکٹرز میں بہتری آنی شروع ہوئی ہے جیسے کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں تیزی، شرح سود کا کم ہونا، ڈالر کا ایک جگہ پر رکنا اور بجلی کے بل کا نیچے آنا یہ سب مثبت اشاریے ہیں۔
’تعمیرات کا شعبہ زوال پذیر ہے‘
محمد حنیف گوہر کا کہنا ہے کہ تعمیرات کا شعبہ زوال پذیر ہے اور اس پر کوئی کام نہیں ہو رہا ہے، قوت خرید نہ ہونے کے برابر ہے اور ہم اس شعبہ میں دن بدن اعتماد کھوتے جا رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ سمندر پار پاکستانی بھی یہاں اپنا سرمایہ نہیں لگا رہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ملک میں سیاسی استحکام کا ہونا بہت ضروری ہے اگر ہم سیاسی طور پر مستحکم ہو جاتے ہیں تو پھر ہمیں معاشی طور پر مستحکم ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
’سال 2023 معیشت کے لیے بیحد مشکل سال تھا‘
تجزیہ کار اور سینیئر صحافی تنویر ملک نے وی نیوز کو بتایا کہ سال 2024 میں ہمیں مکس ٹرینڈ نظر آتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سنہ 2023 پاکستان کی معیشت کے لیے ایک مشکل سال تھا ایکسپورٹس نیچے اور مہنگائی اوپر گئی اور بیرونی سرمایہ کاری پاکستان میں نہیں آسکی جس کا سبب سیاسی عدم استحکام تھا جبکہ سنہ 2024 میں بھی ہم سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کچھ مثبت اشاریے نظر تو آرہے ہیں لیکن ان کی بنیاد پر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہماری معیشت مستحکم ہو چکی ہے۔
تنویر ملک کا کہنا تھا کہ 8 فروری کے بعد آنے والی حکومت نے امپورٹ پر پابندی عائد کی جس کے بعد ہمارے ریزروز میں اضافہ ہوا، آئی ایم ایف سے کامیاب مذاکرات کے بعد ہمیں قرضہ ملا، ڈالر کی قیمت میں ٹھہراؤ آیا اور روپے کی قدر میں بہتری دکھائی دی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈالر کے استحکام اور شرح سود میں کمی نے معیشت کو سہارا ضرور دیا، شرح سود میں کمی کے باعث پیسہ بینکوں سے نکلا اور اسٹاک مارکیٹ چلا گیا جس سے اسٹاک ایکسچینج کی کارکردگی بہترین رہی لیکن ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ اسٹاک مارکیٹ ہماری معیشت کا آئینہ دار ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا اصل مسئلہ ریئل اکانومی ہے یعنی زراعت اور انڈسٹریز جس پر اگر کام ہوا تو ہماری معیشت بھی مستحکم ہوگی اور غربت بھی کم ہوگی۔
’سال 2024 گیم چینجر ثابت ہوا‘
اسٹاک مارکیٹ ایکسپرٹ شہریار بٹ کا کہنا ہے کہ مالی سال 2024 پاکستانی معیشت کے لیے گیم چینجر ثابت ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے بعد ان کی ہدایات پر عمل درآمد کرایا گیا، ڈالر کی اسمگلنگ کو روکا گیا، ٹیکس ریونیو بڑھانے کے لیے اقدامات کیے گئے، حکومتی سخت فیصلوں کے پیش نظر غربت میں کمی دیکھنے میں آرہی ہے، شرح سود میں کمی رونما ہوئی اور یہ تمام باتیں پاکستان اسٹاک مارکیٹ پر مثبت طور پر اثر انداز ہوئی ہیں اور پاکستان اسٹاک مارکیٹ کارکردگی کے اعتبار سے دنیا کی بہترین اسٹاک مارکیٹ قرار پائی۔
’بیرون ملک جانے والی افرادی قوت میں کمی ہوئی‘
تجزیہ کار اور پاکستان اوورسیز ایمپلائز پروموٹرز ایسوسی ایشن کے نائب صدر محمد عدنان پراچہ کا کہنا ہے کہ سال 2023 کے مقابلے میں سال 2024 میں کوششوں کے باوجود بیرون ملک جانے والی افرادی قوت میں کمی واقعی ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش ہے کہ ہم سال 2025 میں بڑی تعداد ملک سے باہر لے جانے میں کامیاب رہیں، سعودی عرب میں 6 لاکھ افرادی قوت جانی چاہیے تھی جو کہ صرف 4 لاکھ تک گئی، متحدہ عرب امارات کے ساتھ بھی ویزے کے مسائل کا آغاز 2024 میں ہی ہوا۔
عدنان پراچہ نے امید ظاہر کی کہ حکومت اس شعبے کو سنجیدگی سے دیکھے گی اور سال 2025 بہتر رہے گا۔
’گاڑیوں کی قیمتیں نیچے آنے کی توقع ہے‘
آٹو موبائل سیکٹر ایکسپرٹ مشہود علی خان کا کہنا ہے کہ جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ شرح سود میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے اور سال 2024 اس حوالے سے خوش آئند رہا ہے لیکن آٹو موبائل انڈسٹری کے لیے شرح سود کا سنگل ڈیجٹ میں ہونا خوش آئند ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک گاڑیوں کی قیمتوں کی بات ہے تو وہ سال 2024 میں بہت اوپر گئی ہیں لیکن شرح سود میں کمی سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ سال 2025 میں گاڑیوں کی قیمتیں نیچے ضرور آئیں گی۔