عمران خان کی رہائی کے لیے کسی ملک نے باضابطہ رابطہ نہیں کیا، رانا ثنااللہ


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)وزیراعظم شہباز شریف کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ عمران خان کی رہائی کے لیے کسی ملک نے پاکستان یا حکومت پاکستان سے باضابطہ رابطہ نہیں کیا، پی ٹی آئی نے امریکا میں لابیز ہائیر کررکھی ہیں جن میں شامل لوگ بیان دیتے رہتے ہیں جن کی کوئی حیثیت نہیں۔
1999 میں میاں نواز شریف کے لیے بل کلنٹن آئے تھے، اب پی ٹی آئی امید لگائے بیٹھی ہے کہ ہمارے لیے ڈونلڈ ٹرمپ آئیں گے، کیا پاکستان پر کوئی بیرونی دباؤ ہے کہ حکومت مجبور ہوجائے کسی کو رہا کرنے پر؟ اس سوال کے جواب میں وزیراعظم شہباز شریف کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ امریکا میں عمران خان کی حمایت کے لیے لابیز موجود ہیں، پی ٹی آئی نے امریکا میں لابنگ فرم ہائیر کی ہوئی ہے، جس میں یہودی لابی اور انڈین لابی بھی شامل ہے۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ ان لابیز نے پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے الیکشن میں بھی پیسے خرچ کیے ہیں، اب بھی کررہے ہیں۔ یہ لابنگ کرکے بیان دیتے رہتے ہیں لیکن ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے، امریکا سمیت کسی بھی ملک نے باضابطہ طور پر نہ کوئی بیان، نہ پیغام پاکستان کو شیئر نہیں کیا۔ جہاں تک خط لکھنے کا تعلق ہے وہ تو سارے لکھتے پھرتے رہتے ہیں۔
ملٹری ٹرائل میں قانون کے تقاضے پورے کیے گئے
فوجی عدالتوں کے فیصلوں پر بیرونی دباؤ کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں رانا ثنااللہ نے کہا کہ ملٹری ٹرائل میں قانون کے تقاضے پورے کیے گئے ہیں، آرمی ایکٹ مارشل لا کا ضابطہ نہیں ہے، اس ایکٹ کے تحت پہلے بھی مقدمات چلائے گئے ہیں، 9 مئی کے مقدمات میں نامزد ملزمان کے جرم کی نوعیت ایسی تھی کہ ان کے مقدمات ملٹری کورٹ میں چلائے گئے۔ ملٹری کورٹس میں آئین و قانون کے مطابق مقدمات چلائے جارہے ہیں۔ پاکستان کے اس حوالے سے عالمی معاہدوں پر دستخط موجود ہیں۔ ملٹری تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کے ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہی ہوتے ہیں۔
پاکستان میں انتشار کی سیاست 2014 سے شروع ہوئی
کیا 9 مئی کا آغاز 2014 سے ہوا؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان میں انتشار کی سیاست، اؤے توئے کی سیاست، نفرت اور دوسروں کو بے عزت کرنے کی سیاست، دھرنوں اور اس قسم کی گھٹیا سیاست کا آغاز 2014 سے ہی ہوا۔ 2014 کے دھرنوں سے لے کر 26 مئی 2024 کے دھرنے تک پورے 10 سال دیکھ لیں۔ انتشار، بلیک میلنگ اور افراتفری پر مبنی سیاست ہے۔ پاکستان میں اس سے پہلے اس طرح کی سیاست کا کوئی وجود نہیں تھا۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ 90 کی دہائی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان محاذ آرائی ضرور تھی لیکن اس قسم کی انتشاری سیاست نہیں تھی۔ اس سے بہت اگلے درجے کی سیاست 2014 میں شروع ہوئی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے درمیان محاذ آرائی کے باوجود مذاکرات بھی ہوتے رہے اور معاملات بہتری کی طرف گئے۔
کیا اب مذاکرات کے بعد انتشار کی سیاست ختم ہوجائے گی اور مذاکرات کی سیاست فروغ پائے گی؟ اس سوال کے جواب میں رانا ثنااللہ نے کہا کہ یہ اچھی پیشرفت ہے کہ دونوں پارٹیز نے ایک دوسرے کے ساتھ ٹیبل پر بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہاں بیٹھ کے یہ کوشش کی جائے گی کہ انتشار اور افراتفری کی سیاست، دھرنوں اور حملوں کی سیاست کے بجائے سیاسی مذاکرات سے معاملات حل کیے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی اور حکومتی کمیٹی کے آئندہ مذاکرات 2 جنوری کو ہوں گے۔ اس میٹنگ میں پہلی میٹنگ کے تناظر میں معاملات آگے بڑھائے جائیں گے۔ پی ٹی آئی جو مطالبات دے گی ان کا جواب اپنی لیڈرشپ کو اعتماد میں لے کر دیں گے۔ جب دونوں جانب سے بات ہوگی تو کوئی درمیانی راستہ نکل آئے گا۔ آئندہ 2سے 3ملاقات میں پتا چل جائے گا کہ پیشرفت ہوسکتی ہے یا نہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *