عمران خان سمیت مرکزی قیادت پابند سلاسل، پی ٹی آئی کی مشکلات سال 2024 میں بھی کم نہ ہوئیں
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)سال 2024 میں بھی سیاسی عدم استحکام عروج پر رہا، مئی 2023 سے شروع ہونے والی پاکستان تحریک انصاف کی مشکلات سال 2024 کے اختتام پر بھی کم نہ ہوسکیں، بانی پی ٹی آئی عمران خان، شاہ محمود قریشی سمیت متعدد رہنما تاحال پابند سلاسل ہیں، جبکہ جیل سے باہر قیادت کے باہمی اختلافات بھی سال بھر زبان زد عام رہے۔
سنہ 2024 کے آغاز پر ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کو ایک نئی زندگی ملی، 9 مئی کے بعد کوئی بھی بڑا سیاسی معرکہ نہ دکھا سکنے والی پارٹی نے 8 فروری کے انتخابات میں بڑی کامیابی خیبرپختونخوا میں حکومت قائم کرکے سمیٹی اور تمام سیاسی پنڈتوں کو غلط ثابت کیا۔ اس کے بعد فارم 47 کا بیانیہ عام انتخابات کے بعد اپنے عروج پر رہا اور پی ٹی آئی نے اپنی مقبولیت کا دعویٰ درست ثابت کردیا۔
پی ٹی آئی نے 8 فروری کے انتخابات کے نتائج کو قبول نہ کرتے ہوئے 10 مارچ کو مبینہ دھاندلی کے خلاف ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا اور مختلف شہروں میں مظاہرے کیے، 15 جولائی کو حکومت نے پی ٹی آئی پر بحیثیت سیاسی جماعت پابندی کا اعلان کیا لیکن بعدازاں حکومت اس اعلان سے پیچھے ہٹ گئی۔
جولائی میں پی ٹی آئی اراکینِ پارلیمنٹ نے عمران خان کی گرفتاری، سیاسی کارکنان کے خلاف مقدمات اور گرفتاریوں کے خلاف پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر بھوک ہڑتالی کیمپ بھی لگایا جسے زیادہ پذیرائی حاصل نہ ہوسکی۔
لگ بھگ ڈیڑھ سال بعد پی ٹی آئی نے بطور جماعت خیبرپختونخوا سے ہٹ کر ستمبر میں اسلام آباد کے علاقے سنگجانی میں جلسہ کیا اور عمران خان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا، 10 ستمبر کو جمہوریت پر حملے اور پارلیمان کے تقدس کی پامالی کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کیا گیا تو 11 ستمبرکو پارلیمنٹ سے پی ٹی آئی رہنماؤں کو گرفتارکرلیا گیا۔
پی ٹی آئی نے بعد میں پشاور، راولپنڈی، لاہور، فیصل آباد میں احتجاجی مظاہرے کیے اور پولیس کے ساتھ محاذ آرائی جاری رہی۔
پی ٹی آئی نے اکتوبر اور پھر 24 نومبر کو ڈی چوک پہنچنے کی کال دی جس کا انجام آپریشن اور گرفتاریوں پر ہوا۔
پی ٹی آئی کی جانب سے 24 نومبر کو 26ویں آئینی ترمیم کے خاتمے، جمہوریت، آئین کی بحالی، مینڈیٹ کی واپسی اور سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لیے فائنل کال کا اعلان کیا گیا، احتجاج کے دوران 25 نومبر کو ایک پولیس اہلکار شہید ہوا تو 26 نومبر کو 4 رینجرز اہلکار جام شہادت نوش کرگئے۔
اس کے بعد مظاہرین کے ڈی چوک پہنچنے پر سیکیورٹی فورسز نے انہیں منتشر کردیا تو پاکستان تحریک انصاف نے الزام عائد کیاکہ ان کے 13 کارکنان فائرنگ سے شہید جبکہ سینکڑوں زخمی اور لاپتا ہیں، لیکن حکومت کی جانب سے ان الزامات کو یکسر مسترد کیا گیا۔
بعد ازاں رواں ماہ پی ٹی آئی قیادت نے 9 مئی اور 26 نومبر کے پُرتشدد واقعات کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے اور قید کارکنان کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے حکومت سے بامقصد مذاکرات کے لیے کمیٹی تشکیل دی اور کہاکہ اگر حکومت نے سنجیدگی نہ دکھائی تو سول نافرمانی کی تحریک چلائیں گے۔
مذاکرات نہ ہونے کی صورت میں بانی پی ٹی آئی عمران خان نے پہلے 15 دسمبر کو اور پھر 23 دسمبر کو سول نافرمانی شروع کرنے کا اعلان کیا لیکن حکومت کی جانب سے مذاکرات میں سنجیدگی کے پیش نظر یہ کال وقتی طور پر مؤخر کردی گئی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان محاذ آرائی کو وقتی طور پر بریک دسمبر کے آخری ہفتے میں لگی جب حکومت نے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی سربراہی میں مذاکراتی کمیٹی بنائی جس کا پہلا اجلاس 23 نومبر کو ہوا، اب اگلا اجلاس 2 جنوری کو ہے۔ سیاسی ماہرین کہتے ہیں کہ امید ہے اب مذاکرات سے سیاسی عدم استحکام میں کم آئےگی۔
سال 2024 میں جہاں پی ٹی آئی نے سیاسی مشکلات کا سامنا کیا وہیں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور بھی تنقید کی زد میں رہے۔ کبھی لاہور جلسے میں نہ پہنچنا اور کبھی راولپنڈی کی ریلی کا راستے سے اختتام کر دینا اور پھر 4 اکتوبر کو کارکنان کو چھوڑ کر ڈی چوک سے کے پی ہاؤس روانہ ہوجانے سے علی امین گنڈاپور عوامی مقبولیت کھوتے رہے۔ اس دوران ان کی گرفتاری اور اغوا کی بھی خبریں گردش کرتی رہیں، لیکن وہ ہر بار منظر عام پر آکر اپنی گرفتاری یا اغوا سے متعلق کوئی تصدیق نہ کرسکے۔