بلوچستان میں ہر دوسرے دن ایک عورت قتل یا تشدد کا نشانہ بن جاتی ہے،رپورٹ
کوئٹہ(قدرت روزنامہ)عورت فائونڈیشن نے بلوچستان میں عورتوں کے خلاف تشدد کی صورت حال سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ جنوری تا دسمبر2024کوئٹہ میں جاری کردی ہے رپورٹ عورتوں کے خلاف تشدد کے ہونے والے واقعات پر جمع کردہ اعداد و شمار پر مشتمل ہے و کہ عورت فائونڈیشن کے قومی پروگرام پاکستان میں عورتوں کے خلاف تشدد کے واقعات کے اعداد و شمار کا تجزیہ اور پالیسی مرتب کرتا ہے عورتوں کے خلاف تشدد ایک خطرناک حد تک عالمی مظہر کا باعث بن رہا ہے ۔ جس سے بے شمار عورتوں کی عزت و ناموس متاثر ہو رہی ہے تشدد ایک بہت ہی بڑا صنفی امتیاز ، غیر مساویانہ امتیاز اور معاشرے میں نا ہمواری کا بڑھتا ہو ا ذریعہ بن رہا ہے ۔ تشدد کے حوالے سے اعداد و شمار برف پگھلنے کا ایک معمولی ذرہ معلوم ہوتا ہے ۔ اس رپورٹ کا مقصد بلوچستان میں عورتوں کے خلاف تشدد کے واقعات کی نشاندہی کرناہے ۔ جس کا مقصد زیادہ معلوماتی اور مددگار ماحول اور سماجی دبائو پیدا کرنا ہے۔ عورتوں کے خلاف تشدد کے واقعات کے اعداد و شمار مستقبل میں بننے والی پالیسی اور قانونی اصلاحات کے سلسلے میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں ، سیاسی جماعتوں اور قانون دانوں کو مصالحتی طریقہ کار ، ترقیاتی پالیسیوں کے فریم ورک اور ادارتی نظام کے تحت عورتوں کے خلاف تشدد کے خاتمہ میں مددگار ثابت ہونگے سال 2024کی رپورٹ کے مطابق پورے بلوچستان میں ہر دوسرے دن ایک عورت قتل یا تشدد کا نشانہ بن جاتی ہے ۔ بلوچستان میں پچھلے بارہ ماہ کے دوران تشدد کے 73 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ تقریبا تمام واقعات رپورٹ شدہ ہیں ۔ ان واقعات میں 43خواتین اور 14 مرد قتل ہوئے جس میں سے 19خوتین اور 14مرد غیرت کے نام پر قتل ہوئیں ،04 عورتوں نے گھریلوحالات سے تنگ آکر خودکشی کی ، 1 خاتون کو ہراساں کیا گیا، 2 خواتین پر گھریلو تشددکیا گیا ،7 خواتین کے ساتھ زیادتی کی گئی ، جبکہ 2 خواتین کو اغوا کیا گیا کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ ایک نظر پاکستان میں موجود صنفی تشدد کی صورتِ حال پرجس میں خواتین کیخلاف جرائم کی رپورٹ، جنسی زیادتی کیسز میں پنجاب سرفہرست ہیں ، خواتین کے خلاف جرائم سے متعلق ایک تفصیلی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ جنسی زیادتی کے کیسز میں زیادہ پنجاب میں رپورٹ ہو رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق آبرو ریزی کے کیسز میں پنجاب سر فہرست رہا۔ ملک بھر میں 7,010 کیسز میں سے 6,624 کیسز پنجاب میں رونما ہوئے۔ اگر پنجاب میں صنفی تشدد کے اعداد و شمارپر ایک نظر ڈالیں تو 2023 کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سال بھر میں خواتین کے خلاف تشدد کے 10,201 مقدمات سیکشن 354 کے تحت درج کیے گئے (عورت پر حملہ یا مجرمانہ طور پر اس کی عزت کو مجروح کرنے کے ارادے سے) جس میں لفظ، اشارہ یا فعل کے ذریعہ عورت کی توہین کرنا ہے۔ اسی طرح سندھ میں خواتین کے اغوا کے سب سے زیادہ کیسز ریکارڈ ہوئے،جن کی تعداد 1,666 رہی۔ غیرت کے نام پر قتل کی جانے والی خواتین کیرپورٹ کیے گئے کیسز میں سندھ پہلے نمبر پر رہا، جس کے 258 واقعات رپورٹ ہوئے جو کہ پاکستان میں غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کے تقریبا نصف ہیں۔ رپورٹ کے مطابق عصمت دری، اغوا اور غیرت کے نام پر قتل ہونے والی خواتین کے اعداد و شمار پریشان کن ہیں۔ آبرو ریزی کے کیسز میں پنجاب سر فہرست رہا، ملک بھر میں 7,010 کیسز میں سے 6,624 کیسز پنجاب میں رونما ہوئے،جس کا شرح تناسب 94.5 فیصد رہا،جو ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان میں عصمت دری کے زیادہ تر واقعات پنجاب میں رونما ہوئے۔ دوسری جانب سندھ میں 188، خیبر پختونخوا میں 187، اور بلوچستان میں عصمت دری کے11 واقعات رپورٹ ہوئے۔ 2023کی یہ رپورٹ صوبائی پولیس محکموں میں درج درخواستوں سے حاصل کیے گئے اعدادوشمار پر مشتمل ہے۔ جو 2023 کے دوران پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں رپورٹ ہونے والے جی بی وی کیسز کا تجزیہ کرتی ہے۔ اگرچہ صوبائی پولیس کی جانب سے رپورٹ کیے گئے کیسز کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، تاہم مزید ہزاروں واقعات کے غیر دستاویزی ہونے کا امکان ہے۔ عورت فائونڈیشن کی رپورٹ کے مطابق کیسس میں وسیع تفاوت اس بات کی نشاندہی نہیں کرتا کہ سندھ، خیبر پختونخوا یا بلوچستان جیسے علاقوں میں خواتین کے خلاف تشدد کم پایا جاتا ہے بلکہ یہ سماجی بدنامی، خوف، اور خاندان والوں کی عدم سرپرستی کی بنا پر رپورٹ نہ ہونے والے کیسز کی نشاندہی کرتا ہے۔ رپورٹ صوبے میں صنفی بنیاد پر کیے گئے تشدد کے تاریک پہلوں کی عکاسی کرتی ہے۔ عورت فانڈیشن یہ بھی مطالبہ کرتی ہے کہ ان حساس نوعیت کے کیسس کو سنجیدگی سے لیا جائے،جس کے لیے پولیس کو خصوصی تربیت دی جائے،بروقت مقدمات کا اندراج کیا جائے اور صاف و شفاف محکمانہ کارروائی پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ مختلف مکاتب فکر سے وابستہ افراد کو متحرک ہونا چاہیے تاکہ سنگین جرائم میں ملوث ملزمان کے خلاف موجود قوانین پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ قوانین کی منظوری کے باوجود اس پر عمل درآمد نہ تو معاشرے میں محسوس ہو رہا ہے اور نہ ہی خواتین و بچیوں پر ظلم جبر تشد د ، کم عمری کی شادیاں، تیزاب گردی ، عصمت دری ، خواتین کا غلط استعمال ، غلام سمجھ کر انکے زندہ درگو اور خصوصا غیرت کے نام پر قتل عام جسے سنگین خلاف ورزیاں کی روکھتام میں کوئی کمی نہیں آئی ہے بلکہ انسان خصوصا خواتین کے خلاف یہ سنگین جرائیم پہلے سے زیادہ منظم انداز میں جاری ہیں جسکے تدراک اور مکمل روک تھام کے لیے عورت فائونڈیشن نے ایوا جی الائنس ساتھ مل کر 16 روزہ خصوصی مہم کے دوران حکومت وقت کو ایک چارٹر آف ڈیمانڈ بھی پیش کیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق ہمارے معاشرے کے بعض رسم و رواج اسلام سے متصادم ہونے کی بنا پر عورتوں کے حقوق کی نفی کرتے ہیں۔خواتین کی حالت زار بدلنے کے لئے ضروری ہے کہ انہیں سیاسی سطح پر مستحکم کیا جائے اور زندگی کے تمام شعبوں میں نمائندگی دی جائے ۔خواتین کے حقوق کی سب سے بڑی گارنٹی انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہے ۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں رائج قبائلی رسم و رواج کے تحت عورت کو جائیداد کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جو اس کے حقوق کے برعکس ہے ۔ عورت کو واقعی طور پر اس کا مقام دینا مقصود ہو تو انہیں سیاسی ، تعلیمی ، انتظامی اور مالی طور پر مستحکم کرنا ہوگا۔ پچھلے70سالوں میں ہم نے عورت کو انسان ہی نہیں سمجھا ۔ ان کو طرح طرح کے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ جب تک رویوں میں تبدیلی نہیں لائی جائے گی اس وقت تک عورت کااستحصال ہوتا رہے گا۔