جسٹس یحییٰ آفریدی کے چیف جسٹس بننے کے بعد سپریم کورٹ میں کیا بدلا؟
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)جسٹس یحییٰ آفریدی کے بطور چیف جسٹس اب تک کے اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو ان 2 ماہ کے قلیل عرصے میں آئینی بینچ کی تشکیل، سپریم کورٹ و ہائیکورٹ ججز تعیناتی رولز کی منظوری، عدالتی اصلاحات اور جیل اصلاحات پر کام کا آغاز سامنے آتا ہے۔
7 نومبر کو وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ ججز کا ہاؤس رینٹ 68 ہزار سے بڑھا کر ساڑھے 3 لاکھ روپے جبکہ جوڈیشل الاؤنس 4 لاکھ 28 ہزار روپے سے بڑھا کر 11 لاکھ 68 ہزار روپے کر دیا۔
سپریم کورٹ اب مرکز نگاہ نہیں
سپریم کورٹ آف پاکستان کبھی تمام پاکستانی میڈیا کا مرکز نگاہ ہوتی تھی اور ملکی میڈیا کی زیادہ تر ہیڈلائنز وہیں سے آتی تھیں۔ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد سپریم کورٹ عملی طور پر 2 حصوں میں بٹ چکی ہے۔ عام نوعیت کے مقدمات سپریم کورٹ جبکہ آئینی نوعیت کے مقدمات اب آئینی بینچ سماعت کرتا ہے۔
اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو اس وقت موجودہ چیف جسٹس، جسٹس یحییٰ آفریدی اُس طرح سے مرکز نگاہ نہیں جس طرح ان کے پیشرو چیف جسٹسز ہوا کرتے تھے۔ اُن کے پیشرو چیف جسٹس صاحبان کے زمانے تک وفاقی اور صوبائی حکومتیں ہر وقت سپریم کورٹ کی جانب دیکھتیں کہ نہ جانے کب کون سا فیصلہ آ جائے۔
موجودہ چیف جسٹس کے دور میں آئینی بینچز کی تشکیل بھی ہوئی جس میں چیف جسٹس یحییٰ آفریدی بطور سربراہ جوڈیشل کمیشن شامل تھے لیکن انہوں نے آئینی بینچ کی مخالفت میں ووٹ دیا۔ تاہم آئینی بینچز نے اب تک مقننہ کے بنائے ہوئے قوانین ہی کو مقدم رکھا ہے اور آئینی ترامیم پر سوالات اٹھانے سے گریز کیا ہے۔
یہاں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے سے جس طرح چیف جسٹس کے انتخاب کے طریقہ کار کو تبدیل کیا گیا اگر پرانا طریقہ کار رائج ہوتا تو جسٹس یحییٰ آفریدی چیف جسٹس نہیں بن سکتے تھے بلکہ ان کی جگہ جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس بنتے۔
ملا جُلا ردعمل
اس صورتحال کو بعض حلقے خوش آئند قرار دیتے ہیں اور بعض اسے عدلیہ کی آزادی کے منافی سمجھتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل راقم الحروف نے جب سپریم کورٹ میں یہی سوال حزب اقتدار سے تعلق رکھنے والی جماعت کے ایک سیاستدان کے سامنے رکھا تو انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر موجودہ صورتحال کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’سپریم کورٹ ایسی ہی ہونی چاہیے‘۔
اس کے برعکس بعض وکلا کی رائے ہے کہ سپریم کورٹ کے اختیارات سلب کر لیے گئے ہیں اور ملک آزاد عدلیہ سے محروم ہو چکا ہے۔
26ویں آئینی ترمیم کے خلاف زیرالتوا درخواستیں
جس آئینی انصرام کے تحت سپریم کورٹ میں آئینی بینچ بنایا گیا وہ 26 ویں آئینی ترمیم ہے جس کے خلاف درجن بھر سے زائد درخواستیں سپریم کورٹ آف پاکستان میں دائر ہو چکی ہیں۔ سنی اتحاد کونسل، جماعت اسلامی، صوبائی بار کونسلز اور انفرادی حیثیت میں بھی 26 ویں آئینی ترمیم کو چیلنج کیا گیا ہے لیکن ابھی تک یہ سماعت کے لیے مقرر نہیں ہو پائیں۔
سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر اس سلسلے میں چیف جسٹس کو خط بھی لکھ چکے ہیں کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دی جائے لیکن معاملہ تاحال زیرالتوا ہے۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے دور میں بدلی ہوئی سپریم کورٹ
26 اکتوبر 2024 کو بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ حلف اٹھانے کے بعد چیف جسٹس 28 اکتوبر کو فل کورٹ اجلاس بلایا جس میں جسٹس منصور علی شاہ کے علاوہ تمام جج صاحبان نے شرکت کی۔ جسٹس یحییٰ آفریدی کے دور میں سپریم کورٹ میں مقدمات کے فیصلوں میں تیزی آئی۔
سپریم کورٹ وقتاً فوقتاً سپریم کورٹ میں مقدمات نمٹائے جانے کے حوالے سے اعداد و شمار جاری کرتی رہتی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ میں مقدمات کے فیصلوں میں تیزی آئی ہے اور زیرالتوا مقدمات میں کمی واقع ہوئی ہے۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اور عدالتی اصلاحات
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو منصب سنبھالے 2 ماہ سے زیادہ ہوچکے ہیں اور اس عرصے میں عدالتی اصلاحات، جیل اصلاحات پر کام ہوا۔
چیف جسٹس جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے سربراہ بھی ہیں اور گزشتہ ہفتے ہی کمیشن نے ہائیکورٹ، سپریم کورٹ ججز تعیناتی رولز کی بھی منظوری دی۔
یکم نومبر کو ایک مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ بعض اوقات سپریم کورٹ کے ایک لائن لکھ دینے سے 18، 18 سال مقدمات کے فیصلے نہیں ہو پاتے اس لیے ہم کسی مقدمے میں ایسی آبزرویشن نہیں دیں گے جس سے نچلی عدالت میں مقدمہ دوبارہ شروع ہو جائے۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے سپریم کورٹ میں 3496 ٹیکس مقدمات زیرالتوا ہونے پر تشویش کا اظہار کیا اور رجسڑار سپریم کورٹ، ایف بی آر حکام اور معاشی ماہرین پر مشتمعل کمیٹی تشکیل دی جو اس معاملے کو حل کرے۔
چیف جسٹس نے 7 نومبر کو انسداد دہشت گردی عدالتوں کے انتظامی اجلاس کی صدارت کی جس میں انسداد دہشتگردی عدالتوں کے جج صاحبان کو مقدمات پر پیشرفت رپورٹس ساتھ لانے کو کہا گیا۔7 نومبر کو ہی چیف جسٹس نے عدالتی اصلاحات کے حوالے سے ایک تشخیصی مطالعہ کرانے کا بھی آغاز کیا جس میں کہا گیا کہ اس میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد رائے دیں گے اور یہ تمام متعلقہ افراد سے مشاورت کے بعد نافذالعمل ہوگا۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے الوداعی ریفرنس ہی میں کہا تھا کہ وہ دور دراز علاقوں کے لوگوں کی نظام انصاف تک رسائی کو یقینی بنانا چاہتے ہیں اور اسی سلسلے میں گزشتہ 2 ہفتوں کے دوران چیف جسٹس نے بلوچستان، اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب کے علاقوں کے دورے کر کے وہاں ضلعی عدلیہ کی کارکردگی اور ان کو درپیش مشکلات کا جائزہ لیا۔
جیل اصلاحات اور فوجداری قوانین میں اصلاحات
2 نومبر کو چیف جسٹس نے پنجاب میں جیل اصلاحات کے حوالے سے ایک مشاورتی اجلاس کی صدارت کی جس میں جیل اصلاحات کے حوالے سے ایک کمیٹی قائم کی گئی جس میں 9 مئی مقدمات میں ضمانت پر رہا خدیجہ شاہ کو بھی بطور رکن شامل کیا گیا۔
اس کے علاوہ گزشتہ دنوں چیف جسٹس نے رحیم یار خان میں جیل کا دورہ کیا اور پنجاب حکومت کے اقدامات کی تعریف کی۔
جیل اصلاحات اور فوجداری قوانین میں اصلاحات کے حوالے سے چیف جسٹس نے چاروں صوبوں میں کمیٹیاں قائم کر دی ہیں جن کی رپورٹس کا جائزہ لینے کے بعد اقدامات کا جائزہ لیا جائے گا۔