اچھی صحت کے لیے بہترین اور مثالی ناشتہ کیا ہے؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)ایسا کہا جاتا ہے کہ ناشتہ دن کی سب سے اہم غذا ہے اور مگر ایسا غذائی مقدار اور معیار سے ہی ممکن ہوتا ہے۔
یہ بات اسپین میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
Hospital del Mar کی تحقیق میں بتایا گیا کہ عمر میں اضافے کے ساتھ ناشتے میں درست توازن ہی اچھی صحت کو یقینی بناتا ہے۔
اس تحقیق میں یہ جائزہ لیا گیا تھا کہ ناشتے میں کتنی کیلوریز کا استعمال کرنا چاہیے اور غذا کا معیار طویل المعیاد بنیادوں پر دل کی شریانوں پر کیا اثرات مرتب کرتا ہے۔
تحقیق کے لیے 383 افراد کو ایک کلینیکل ٹرائل کا حصہ بنایا گیا۔
ان افراد کی عمریں 55 سے 75 سال کے درمیان تھیں اور وہ سب میٹابولک سینڈروم کے شکار تھے۔
پیٹ اور کمر کے گرد چربی کے اجتماع، ہائی بلڈ پریشر، کولیسٹرول، ہائی بلڈ شوگر اور خون میں چکنائی بڑھنے جیسے امراض کے مجموعے کو میٹابولک سینڈروم کہا جاتا ہے، جس سے امراض قلب، ذیابیطس ٹائپ 2 اور فالج کا خطرہ بڑھتا ہے۔
ان افراد کی ناشتے کی عادات اور صحت کا جائزہ 3 سال سے زائد عرصے تک لیا گیا۔
نتائج سے معلوم ہوا کہ جو افراد دن بھر کی کیلوریز کا 20 فیصد سے کم یا 30 فیصد سے زیادہ حصہ ناشتے کے ذریعے جسم کا حصہ بناتے ہیں، ان کی صحت 20 سے 30 فیصد کیلوریز جزوبدن بنانے والوں کے مقابلے میں بدتر ہوتی ہے۔
تحقیق میں دریافت ہوا کہ صبح کی پہلی غذا میں دن بھر کی کیلوریز کا 20 سے 30 فیصد حصہ جزو بدن بنانے والوں کا جسمانی وزن صحت مند ہوتا ہے، توند نکلنے کا امکان کم ہوتا ہے جبکہ کولیسٹرول لیول بھی بہتر ہوتا ہے۔
تحقیق میں یہ بھی دریافت ہوا کہ غذا کی مقدار کے ساتھ ساتھ اس کا معیار بھی اہم ہوتا ہے۔
جو افراد ناشتے میں کم معیاری غذاؤں کا استعمال کرتے ہیں ان کو منفی اثرات کا سامنا ہوتا ہے جیسے کمر کا حجم بڑھ جاتا ہے، خون میں چکنائی کی مقدار بڑھتی ہے جبکہ گردوں کے افعال بھی متاثر ہوتے ہیں۔
محققین نے کہا کہ درمیانی عمر کے افراد کو امراض قلب سے بچنے یا ان کے اثرات کو کنٹرول کرنے کے لیے ناشتے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
انہوں نے بتایا کہ ناشتے میں سالم اناج، انڈے، پھلوں یا سبزیوں اور صحت کے لیے مفید چکنائی صحت کے لیے مثالی ثابت ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اچھے ناشتے سے میٹابولک سینڈروم اور دیگر دائمی امراض سے بچنے میں مدد مل سکے۔
اس تحقیق کے نتائج جرنل نیوٹریشن، ہیلتھ اینڈ ایجنگ میں شائع ہوئے۔
اس سے قبل دسمبر 2024 میں جرنل نیوٹریشنز میں شائع ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ ناشتے کا وقت جسمانی وزن اور بلڈ پریشر کے حوالے سے اہم ہوتا ہے۔
اس تحقیق میں ماضی کی متعدد ایسی تحقیقی رپورٹس کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا جن میں موٹاپے کے شکار افراد کو شامل کیا گیا تھا۔
تحقیق میں یہ دیکھا گیا کہ کھانے کے اوقات کس حد تک جسمانی وزن اور بلڈ پریشر کی سطح پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
اس مقصد کےلیے یہ دیکھا گیا کہ جلد، تاخیر یا غیر معینہ وقت پر کھانے سے صحت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
تحقیق میں انٹرمٹنٹ فاسٹنگ اور روایتی ڈائیٹنگ کا موازنہ بھی کیا گیا۔
خیال رہے کہ انٹرمٹنٹ فاسٹنگ طریقہ کار میں روزانہ ایک خاص دورانیے تک کھانے سے دوری اختیار کی جاتی ہے۔
تحقیق میں دیکھا گیا کہ اگر کوئی فرد اپنی دن بھر کی غذا 10 گھنٹوں کے اندر استعمال کرلے اور 14 گھنٹے کھانے سے دور رہے تو کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ صرف کیلوریز کی مقدار میں کمی لانے یا روایتی ڈائیٹنگ سے فائدہ نہیں ہوتا بلکہ کھانے کا وقت جسمانی وزن میں نمایاں حد تک کمی لاتا ہے۔
تحقیق کے مطابق جو افراد صبح 11 بجے سے پہلے ناشتہ کرلیتے ہیں، ان کے جسمانی وزن میں دیگر کے مقابلے میں زیادہ کمی آتی ہے۔
محققین کے مطابق ناشتہ نہ کرنے کے مقابلے میں کسی بھی وقت ناشتہ کرنا وزن میں کمی لانے کے لیے زیادہ بہتر ہوتا ہے، مگر صبح 11 بجے سے پہلے ناشتہ کرنے سے بلڈ پریشر کی سطح پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *