معاشی محاذ پر مشکل ترین سال جھیلنے کے بعد 2025 کیسا رہے گا؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)2024 کو پاکستانی معاشی ماہرین نے معیشت کے لیے مشکل ترین سال قرار دیا یے۔ سال کے آغاز سے ہی ملک سیاسی و معاشی عدم استحکام اور بحرانوں کی لپیٹ میں تھا اور خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ ملک کسی بھی لمحے دیوالیہ ہوجائے گا۔
تاہم، گزشتہ سال کے آخری مہینوں کے دوران افراط زر کی شرح میں کمی دیکھنے میں آئی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 2025 میں بھی افراط زر کی شرح مستحکم رہنے کا امکان ہے لیکن اس کا انحصار حکومت کے فیصلوں پر ہے۔ 2025 معاشی اعتبار سے کیسا رہے گا اور حکومت کو 2025 میں معاشی استحکام کے لیے کون سے اقدامات کرنا ہوں گے، اس حوالے سے جاننے کے لیے وی نیوز نے چند ماہرین سے بات کی اور ان کی رائے جانی۔
2025 میں معاشی استحکام کے لیے 3 ضروری کام کرنا ہوں گے، ڈاکٹر سلمان شاہ
معاشی ماہر ڈاکٹر سلمان شاہ نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 2024 پاکستان کے لیے معاشی استحکام کا سال تھا، اس معاشی استحکام کی سب سے بڑی وجہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ معاشی استحکام کا اثر افراط زر میں کمی کی صورت میں دیکھا گیا، 2025 میں اگر پاکستان آئی ایم ایف کے پروگرام کے تسلسل کو یقینی بنائے اور فروری اور مارچ کا جائزہ مکمل ہو جائے تو ملک میں بڑے پیمانے پر معاشی استحکام آئے گا۔
انہوں نے کہا کہ معاشی استحکام کے حصول کے بعد ہمیں پاکستان کے بنیادی مسائل کو حل کرنا ہوگا تاکہ ملک پائیدار ترقی کی جانب بڑھ سکے کیونکہ جب استحکام آئے گا تو ملازمتوں کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے اور ملک کا صنعتی شعبہ بھی ترقی کرے گا۔ ڈاکٹر سلمان شاہ نے کہا کہ ہمیں عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں اور ملکی زرعی پیداوار پر نظر رکھنا ہوگی، اس کے علاوہ شعبہ توانائی میں موجود خامیوں کو بھی دور کرنا ضروری ہوگا، ایسا کرنے سے یہ فائدہ ہوگا کہ افراط زر میں کمی ہوگی اور عوام پر بلاوجہ کا بوجھ ختم ہوجائے گا۔
چین کے ساتھ تعاون اور طویل مدتی اصلاحات معاشی بہتری کی ضمانت ہوں گے، عابد سلہری
معاشی ماہر عابد سلہری نے وی نیوز کو بتایا کہ پاکستان کا معاشی مستقبل 2025 میں مختلف داخلی اور خارجی عوامل اور ان سے نمٹنے کے طریقے پر منحصر ہوگا۔ اگر پاکستان اپنے مالی وعدوں کو پورا کرتا ہے اور آئی ایم ایف کے ساتھ تعلقات کو مستحکم رکھتا ہے تو عالمی مالیاتی امداد حاصل کرسکتا ہے، جس سے معیشت میں استحکام آسکتا ہے، تاہم موسمیاتی تبدیلیوں، توانائی کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور سیاسی مسائل پاکستان کی معاشی راہ میں اہم چیلنجز ہیں، جن کے مؤثر حل کے لیے حکومت کو موسمیاتی لچک، صاف توانائی کی طرف منتقلی اور سیاسی استحکام کی جانب پیش قدمی کرنا ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ چین کے ساتھ توانائی اور ماحولیات کے شعبے میں تعاون پاکستان کے لیے ایک سنہری موقع ثابت ہوسکتا ہے، جو عالمی سطح پر کاربن ٹیکس کے اثرات سے بچنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی معیشت کی ترقی کا انحصار نہ صرف حکومت کی پالیسیوں بلکہ عوامی سرمایہ کاری، انسانی ترقی اور ڈیجیٹل تبدیلی میں بھی ہے، اگر حکومت نے طویل مدتی اصلاحات کی طرف قدم اٹھایا اور انسانی سرمائے کی ترقی پر زور دیا تو پاکستان اپنی معیشت کو جدید طرز پر لے جاسکتا ہے اور عالمی مارکیٹ میں اپنی مسابقت کو بہتر بناسکتا ہے، تاہم اگر سیاسی عدم استحکام یا فیصلوں میں تاخیر ہوئی تو پاکستان کی معیشت مزید تنزلی کا شکار ہوسکتی ہے۔
حکومت نے جو کرنا تھا کرلیا، آگے استحکام ہی نظر آرہا ہے، کامران مرتضیٰ
ماہر معاشیات کامران مرتضیٰ نے پاکستانی معیشت کی مجموعی صورتحال پر رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے بہت سی چیزوں کو کنٹرول کرلیا ہے جس سے میکرو اکنامک اشاریوں میں بہتری نظرآئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا لگ رہا ہے کہ بیشتر سبسڈیز پاس آن کردی گئی ہیں اور حکومت نے مہنگائی کو بھی قابو میں کرلیا ہے، حکومت نے ٹیکس بہت زیادہ بڑھائے ہیں، اب ایسا نہیں لگتا کہ حکومت ملک میں مہنگائی کرنا چاہے گی، حکومت نے معیشت کے استحکام کے لیے جو کرنا تھا وہ کرچکی ہے، مستقبل میں اب مستحکم معیشت ہی نظر آرہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اشیا خورونوش کی قیمتوں میں بھی کافی استحکام آیا ہے کیونکہ مہنگائی کی ماہانہ شرح 38 فیصد سے 5 سے 6 فیصد پر آگئی ہے، روپے کی قدر میں بھی استحکام ہے اور یہ 275 روپے سے 280 یا 281 روپے کے درمیان گھوم رہی ہے، ماہرین کہہ رہے ہیں کہ روپے کی قدر 66 سے 70 روپے کم ہے یعنی روپیہ اس وقت 210 یا 215 روپے پر ہونا چاہیے، یہ حکومت نے پالیسی رکھی ہوئی ہے کہ روپے کی قدر کو مستحکم رکھا جائے۔
کامران مرتضیٰ نے مزید کہا کہ نہیں لگتا کہ حکومت مستحکم معیشت کو ہاتھ سے جانے دے گی، وزیر خزانہ اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ملکی صنعتی ترقی میں ہمارے زرمبادلہ پر بوجھ نہ پڑے، اس لیے وہ تمام صنعتوں کو اس بات پر قائل کررہے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ برآمدات کی طرف جائیں، اڑان پاکستان پروگرام ایکسپورٹ پر مبنی ایک اچھا منصوبہ ہے، حکومت کی سب سے زیادہ کوشش یہ ہے کہ اپنی ٹیکسیشن آمدنی کو بڑھائے، اخراجات کو کم کرے اور اپنی ڈالر ارننگ کو بہتر بنائے۔ انہوں نے کہا کہ امید ہے کہ 2025 میں بھی حکومت اسی پالیسی کے ساتھ چلے گی، اگر اس سال کوئی سیٹ بیک آیا تو وہ یہی ہوگا کہ آئی ایم ایف سے قرضے کی اقساط بروقت ملیں یا آئی ایم ایف پروگرام کسی بھی وجہ سے تعطل کا شکار ہوجائے، ایسی صورت میں حکومت کے لیے معیشت کو سنبھالنا مشکل ہوجائے گا اور روپے کی قدر دوبارہ سے گرسکتی ہے اور اس وقت جو میکرو اکنامک اشاریے مستحکم نظر آرہے ہیں وہ سبوتاژ ہوسکتے ہیں۔
معاشی ماہر شہریار عزیز کا کہنا تھا کہ 2025 میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مستحکم رہنے کی توقع ہے، یہ پاکستان میں مہنگائی کا ایک اہم محرک رہا ہے کیونکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور پیداوار اور نقل و حمل کی لاگت بڑھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امسال خدمات کے شعبے میں قیمتوں میں اضافے کی توقع کی جاسکتی ہے، اس میں بنیادی طور پر تعلیم اور صحت کے شعبے شامل ہیں جبکہ بینکنگ، ٹیلی کمیونیکیشن، آئی ٹی اور دیگر شعبے بھی خدمات کی قیمتوں میں اضافہ کرسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال کے دوران رہنے والی مہنگائی کی بلند شرح 2025 میں کارپوریشنز کی تنخواہوں کے نظرثانی کے حساب کتاب میں اثرانداز ہوگی، جس سے ملازمین کی تنخواہوں کی لاگت میں اضافہ ہوگا، مزید یہ کہ حالیہ برسوں میں انکم ٹیکس میں اضافے نے ملازمین کی خالص آمدنی کو نمایاں طور پر کم کردیا ہے، یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر کارپوریشنز کو اس سال دھیان دینا ہو گا۔
2024 میں کن چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور کونسی چیزیں سستی ہوئیں؟
ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق، ایک سال کے دوران ٹماٹر 138.53 فیصد مہنگے ہوئے، خواتین کے سینڈل کی قیمت میں 75.09 فیصد اضافہ ہوا، آلو 61.17 فیصد، دال چنا 51.17، دال مونگ 31.51 فیصد مہنگی ہوئی۔ اس کے علاوہ پاؤڈر دودھ کی قیمت میں 25.62 جب کہ گائے کے گوشت کی قیمت میں بھی 24.28 فیصد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
گزشتہ ایک سال کے دوران لہسن 17.27 اور پکی ہوئی دال 15.10 فیصد، گیس چارجز 15.52 فیصد اور جلانے والی لکڑی 13.14 فیصد مہنگی ہوئی۔ جبکہ سال 2024 میں پیاز 31.21 فیصد، آٹا 36.20 فیصد، مرچ پاؤڈر 20 فیصد سستا ہوا۔ ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق، ایک سال میں انڈوں کی قیمتوں میں 12.89 فیصد کمی ہوئی، اسی مدت میں دال مسور 11.18 فیصد، باسمتی چاول اور دال ماش کی قیمتوں میں بالترتیب 7.98 اور 6.27 فیصد کمی ہوئی، اس کے علاوہ پٹرول 5.64 اور ڈیزل 7.49 فیصد سستا ہوا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *