کیا اڑان پاکستان منصوبہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے نجات دلوا سکتا ہے؟
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کی جانب سے ملکی معیشت کو بلندیوں پر لے جانے کے پروگرام ’اڑان پاکستان پروگرام‘ کا 31 دسمبر کو افتتاح کیا گیا۔ وزیراعظم نے افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم میکرواکنامک استحکام حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں، اب ہمارا یہ سفر مستحکم معیشت سے مضبوط معیشت تک کا ہے، اڑان پاکستان پروگرام میں برآمدات پر مبنی معیشت ہے۔
اس منصوبے میں آئی ٹی، مینوفیکچرنگ، زراعت، معدنیات، افرادی قوت اور بلیو اکانومی پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے سالانہ 60 ارب ڈالر کی برآمدات کا ہدف رکھا گیا ہے۔
اڑان پاکستان منصوبے کی افتتاحی تقریب کے بعد معاشی ماہرین کی جانب سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اگر اس منصوبے پر مؤثر فریم ورک کے ساتھ عملدرآمد کیا جائے تو یہ پاکستان کی ترقی کے لیے بہترین منصوبہ ہوسکتا ہے اور پاکستان کا شمار دنیا کے ترقی پزیر ممالک میں ہوسکتا ہے۔
پاکستان کی معیشت گزشتہ تقریبا 9 مہینوں میں کافی حد تک مستحکم ہوئی ہے، اس کا ثبوت روپے کی قدر میں استحکام، افراط زر کی شرح میں کمی اور شرح سود میں کمی کی صورت میں دیکھی جاسکتی ہے، پاکستان اس وقت آئی ایم پروگرام میں ہے اور آئی ایم ایف سے 7 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کے سلسلے میں پاکستان ٹیکس، نجکاری اور توانائی سمیت دیگر شعبوں میں اصلاحات کی کوششیں کررہا ہے۔
اڑان پاکستان منصوبہ معیشت کے لیے کتنا نفع بخش ہوگا؟ کیا یہ منصوبہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے نجات دلوا سکتا ہے؟
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے معاشی ماہر قیصر بنگالی نے وی نیوز کو بتایا کہ اڑان پاکستان منصوبہ بھی بہت سے منصوبوں کی طرح صرف اعلانیہ منصوبہ ہی ہے، کیونکہ 40 سے 50 سال ہونے کو ہیں، اعلانات بہت ہوتے ہیں لیکن ہوتا کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ منصوبہ بھی اعلانیہ ہی ہے، کیونکہ اس کا کوئی فریم ورک نہیں ہے اور جب فریم ورک نہیں ہے تو ٹارگٹ کیسے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
’سیکنڈ فائیو ایئر پلان، تھرڈ فائیو ائیر پلان، ففتھ فائیو ائیر پلان بچپن سے اب تک بہت پلان دیکھیں ہیں۔ ان میں ٹارگٹ، اس ٹارگٹ کو حاصل کرنے کے لیے کتنی لاگت آئے گی اور وہ پیسے آئیں گے کہاں سے، پورا پلان ترتیب دیا جاتا ہے۔ صرف یہ نہیں کہ بس آکر ایک منصوبے کا افتتاح کر دیا جائے بغیر کسی تیاری کے کہ ان سب اہداف کو حاصل کرنے کے لیے اسٹریٹیجی کیا ہوگی،اس لیے ایسے منصوبے صرف اعلانات کی حد تک ہی رہتے ہیں۔‘
قیصر بنگالی نے مزید کہا کہ اس منصوبے کے تحت یہ آئی ٹی سیکٹر کو فروغ دینے کی بات کرتے ہیں، آئی ٹی سیکٹر کو کیا فروغ دیں گے۔ ان سے تو انٹرنیٹ ٹھیک نہیں ہو پارہا۔ تو یہ حقائق پر مبنی منصوبہ نہیں سمجھا جاسکتا۔ ہر 2 سال کے بعد ٹریڈ پالیسی آتی ہے، کبھی کہتے ہیں آوٹ آف اسکول اتنے بچے ہیں،جن کو تعلیم کا حق دیا جائے گا۔ صرف کہا جاتا ہے اور کہہ تو کوئی بھی سکتا ہے۔ تعلیم کا حق تو سب کو تب ملے گا جب اتنے اسکولز بھی موجود ہوں۔ حکومت جب تک ان اہداف سے متعلق فریم ورک بنا کر اس پر عملدرآمد نہیں کرتی، اس وقت تک یہ منصوبہ اعلانیہ ہی رہے گا۔
’اڑان پاکستان منصوبے میں حکومت نے اہداف حاصل کا فریم ورک نہیں دیا‘
معاشی ماہر ڈاکٹر فرخ سلیم کا اس حوالے سے وی نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ترقی کے منصوبے بنانا ایک خوش آئند بات ہے کہ حکومت کی جانب سے اس حوالے سے کم از کم سوچا تو جارہا ہے، جہاں تک اڑان پاکستان منصوبے کی بات ہے۔ اس میں حکومت نے اہداف تو بہت سے رکھے ہیں لیکن ان اہداف کو کن سنگ میل کو عبور کرکے حاصل کرنا ہوگا، اس حوالے سے کسی قسم کی فی الحال کوئی چیز واضح نظر نہیں آرہی۔ اس منصوبے کے لیے باقاعدہ طور پر پلاننگ کی ضرورت ہے۔ اور یہ منصوبہ اس لیے بھی اتنا کامیاب نظر نہیں آرہا، کیونکہ ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہے، جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہوگا تب تک ایسے منصوبوں کا کامیاب ہونا مشکل ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بہت سے ابہام موجود ہیں۔،اگر واقعی حکومت ان ابہامات کو دور کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو یہ منصوبہ پاکستان کی ترقی کے لیے بہتر بھی ثابت ہوسکتا ہے، آئی ایم ایف کے پروگرام سے نکلنا تو مشکل ہے کیونکہ اگر یہ منصوبہ کامیاب بھی ہوتا ہے تو اس کو کامیاب ہونے میں بھی وقت لگے گا، یہ منصوبہ اگر واقعی کامیاب ہو گیا تو پاکستان کو آئی ایم ایف پروگرام کی ضرورت ہی نہیں ہوگی۔
’یہ کہنا مشکل ہے کہ منصوبہ پاکستان کو آئی ایم ایف جان چھڑوائے گا‘
ماہر معاشیات شہریار عزیز نے اس حوالے سے بتایا کہ یہ منصوبہ پیش تو کر دیا گیا یے۔ لیکن اس کے اہداف کب کیسے، کس طرح سے حاصل کیے جائیں گے،اس حوالے سے کسی قسم کی کوئی چیز واضح نہیں کی گئی، کسی بھی ہدف کی ٹائم لائنز مقرر کی گئیں نہ ہی اہداف کو مزید واضح کیا گیا یے۔ بس منصوبہ پیش کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اس سے ملک میں ان تمام شعبوں میں ترقی ہوگی۔
شہریار عزیز نے مزید کہا کہ کچھ اقدامات موجودہ سیاق و سباق میں قابلِ حصول نہیں ہیں،یہ کہنا بہت آسان ہے مگر عمل میں لانا مشکل ہے، منصوبے میں کسی ایکشن پوائنٹ کی لاگت کے حوالے سے بھی وضاحت نہیں کی گئی، جب تک یہ تمام چیزیں واضح نہیں ہوں گی کہ کس کو کیا کرنا ہے اور کب تک کرنا ہے، اس وقت تک اہداف حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔
’یہ ایک کالج کے طالب علم کی اسائنمنٹ لگ رہی ہے کہ معیشت کو کیسے ٹھیک کیا جائے، نہ کہ حکومت کا ایسا کاغذ جو تمام شعبہ جاتی ماہرین اور مالی وسائل کے ذریعے تیار کیا جائے جو حکومتِ پاکستان کے پاس ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ کہا منصوبے میں کہا گیا ہے کہ ٹیکس کے دائرہ کو وسیع کریں گے، یہ کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ اس میں یہ واضح طور پر بیان کیا جانا چاہیے کہ یہ ہدف کیسے حاصل کیا جائے گا۔ کیا آپ ریٹیلرز کے لیے پوائنٹ آف سیل(پی او ایس) مشین رکھنا لازمی بنا کر دائرہ وسیع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں یا آپ فرنٹیئر ورک آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او )اور دیگر فوجی کمپنیوں کے منافع پر ٹیکس لگانے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ جب تک تمام چیزیں واضح نہیں ہوتی، اس وقت تک یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ منصوبہ آئی ایم ایف پروگرام سے پاکستان کو چھٹکارا دلوا بھی سکتا ہے یا نہیں۔