پاکستان کا وہ علاقہ جہاں ہر مرض کا علاج افیون ہے


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)سردی کی آمد کے ساتھ ہی خیبرپختونخوا کے ایک دورافتادہ گاؤں میں ایک انوکھی محفل گرم ہوجاتی ہے۔ موسم کی شدت فرصت کے لمحات میں بھی خاصا اضافہ کردیتی ہے کیوں کہ کام کاج کی رفتار وہ نہیں رہتی جو دیگر موسموں میں ہوا کرتی ہے تو ایسے میں گھروں میں ’نظربند‘ افراد کے لیے یہ محفل جہاں وقت گزاری کا ایک بہترین ذریعہ ثابت ہوتی ہے وہیں اس میں بیٹھ کر حیرت انگیز طور پر کئی بیماریوں کو بھی بھگایا جاتا ہے۔
یہ صوبے کے انتہائی شمال میں واقع واخان کولی ڈور کے قریب بروغل نامی ایک گاؤں ہے جہاں سردیوں میں افیون کی باقائدہ محفل سج جاتی ہے۔ یہ یہاں کی بہت قدیم روایت ہے اور یہاں رہنے والوں کے مطابق افیون کئی بیماریوں کے علاج میں بھی بیحد مفید ثابت ہوتی ہے۔
بروغل پاک افغان سرحدی علاقہ ہے جو خیبر پختونخوا کے ضلع اپر چترال کے انتہائی شمال میں افغان سرحد کے قریب واقع ہے۔ یہ سطح سمندر سے تقریباً 12 ہزار 800 فٹ کی بلندی پر واقع ہے اور اس دور جدید میں بھی یہ علاقہ باقائدہ سڑک و اسپتال سمیت دیگر بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔
اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ چترال بازار سے یہاں پہنچنے میں کئی دن لگتے ہیں۔
روایتی واخی گھر اور افیون کی مہک
بروغل اور اس سے ملحقہ علاقوں میں واخی نسل کے لوگ اکثریت میں آباد ہیں جبکہ یہاں تاجک اور دیگر نسل کے خاندان بھی ہیں لیکن ان کی تعداد کم ہے۔
یہاں کھوار کے علاوہ واخی زبان بولی جاتی ہے اور یہاں کے مکین آج بھی روایتی واخی طرز زندگی اور قدیم روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ یہاں گھروں کی تعمیر واخی ثقافت اور شدید سردی و برف باری کو مدنظر رکھتے ہوئے کی جاتی ہے۔ ان گھروں میں ایک بڑا ہال ہوتا ہے جسے مقامی زبان میں ختان کہا جاتا ہے۔ اس ہال کو سونے اور کھانے پکانے سے لے کر گپ شپ اور افیون سے لطف اندوز ہونے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
شام ہوتے ہی واخی ختان میں افیم کی محفل سج جاتی ہے اور کچھ ہی دیر میں اس کا دھواں اور بو ہر شے پر حاوی ہوجاتی ہے۔
گھر کے افراد کا دائرہ بنا کر بیٹھنا
بروغل میں ہر شام اکثر گھروں میں افیون کی محفلیں ہوتی ہیں جن میں خواتین بھی برابر کا حصہ لیتی ہیں۔ پہلے آگ کی تپش سے پورے گھر کو گرم کیا جاتا ہے اور پھر چلم کہلائے جانے والے ایک روایتی پائپ میں افیون بھری جاتی ہے اور پھر وہ چلم باری باری سب کے ہاتھوں سے گزرتی ہوئی دائرے میں گھومنے لگتی ہے۔
گھر کے بڑے ہوں یا چھوٹے، مرد ہوں یا خواتین سب کی باری آتی ہے۔ کچھ گھروں میں یہ معاملہ گھر کی بڑی خاتون سے شروع ہوتا ہے۔ افیون کے استعمال کے لیے ایک خصوصی دائرہ بنایا جاتا ہے جبکہ معمر و نحیف افراد اسے لیٹ کر بھی پیتے ہیں۔
مقامی لیڈر اور رکن یونین کونسل عمر رفیع ایک عرصے سے بروغل سے افیون کے نشے کو ختم کرنے پر کام کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق علاقے میں افیون کے استعمال کی بڑی وجہ پسماندگی اور سہولیات کا کا فقدان ہے۔
عمر رفیع نے کہا کہ ’ہمارے علاقے میں لوگ افیون پیتے ہیں جس کے علاوہ ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے کیوں کہ سردیوں میں یہاں درجہ حرارت منفی 15 سینٹی گریڈ تک گرجاتا ہے اس لیے لوگوں کو افیون کے ذریعے سخت سردی سے بچنے میں مدد ملتی ہے‘۔
ہر مرض کی دوا
عمر رفیع بتاتے ہیں کہ افیون بروغل کی مقامی پیدوار نہیں لیکن اسے سب سے زیادہ استعمال یہیں کے لوگ کرتے ہیں۔ ان کے مطابق بروغل میں سردیوں کا دورانیہ طویل ہوتا ہے اور اکتوبر کے بعد سے ہی برف باری شروع ہو جاتی ہے اور لوگ گھروں تک محدود ہو جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بروغل انتہائی پسماندہ علاقہ ہے اور یہاں کوئی سہولیات نہیں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہاں بجلی، اسپتال، روڈ کچھ بھی نہیں ہے اور حکومت یہاں کے لوگوں کا خیال نہیں رکھتی۔
ان کا کہنا ہے کہ بروغل میں ایک سرکاری ڈسپنسری ہے لیکن وہاں عملہ نہیں ہے جبکہ شدید بیماری کی صورت میں کسی اور علاقے کے اسپتال تک پہچنے میں کئی دن لگ جاتے ہیں جس کی وجہ سے مقامی لوگ افیون پر ہی انحصار کرتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ بروغل میں افیون کو اینٹی بائیوٹیک کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’آپ کہہ سکتے ہیں کہ بروغل میں ہر مرض کی دوا افیون ہے‘۔
اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کسی کو کھانسی ہو، سینہ خراب ہو یا نزلہ زکام ہر صورتحال میں افیون ہی کام کرتی ہے اور بیمار بچوں کا علاج بھی ان کے منہ پر افیون کے دھویں کے مرغولے چھوڑ کر کیا جاتا ہے۔
لوئر چترال کے علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک استاد بروغل کے ایک سرکاری اسکول میں تعینات ہیں۔ اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے بتایا کہ بروغل میں افیون ہر گھر میں استعمال ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب کسی کو کھانے کی دعوت دی جاتی ہے تو وہ افیون کے بغیر نا مکمل تصور کی جاتی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ کئی سرکاری اہلکار بھی افیون کے نشے کی لت میں مبتلا ہیں۔
عمر رفیع اور سرکاری اہلکار دونوں اتفاق کرتے ہیں کہ افیون پینے کی ایک بڑی وجہ سہولیات کا فقدان اور تفریحی مواقع کا نہ ہونا بھی ہے۔ عمر رفیع بتاتے ہیں کہ سردیوں میں علاقے میں کوئی مواقع نہیں ہوتے اور صبح شام گھر کے اندر رہ کر لوگ تنگ آ جاتے ہیں اور مجبور ہو کر نشہ کرتے ہیں۔
کتنے خاندان نشے میں مبتلا ہیں؟
ایک سرکاری اہلکار کے مطابق بروغل اور دیگر پاک افغان سرحدی علاقوں کے مکین افیون اور دیگر منشیات کی لت میں مبتلا ہیں۔ ان علاقوں میں افیون نشے کے زمرے میں تصور ہی نہیں کی جاتی بلکہ اسے دوا کہا جاتا ہے اور پینے کے علاقہ کھایا بھی جاتا ہے۔
سرکاری اہلکار کے مطابق بروغل میں کوئی گھر ایسا نہیں جہاں افیون کے نشے کا عادی موجود نہ ہو۔
رکن یونین کونسل عمر رفیع بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کے مطابق بروغل کی آبادی 3 ہزار تک ہے جس کی اچھی خاصی تعداد افیون کی عادی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے بہت زیادہ لوگ اس کے عادی تھے تاہم علاج اور تعلیم پر توجہ کے بعد اس میں کچھ حد تک کمی آئی ہے لیکن عمر رسیدہ افراد افیون کا استعمال بدستور جاری رکھے ہوئے ہیں۔
بروغل اور دیگر سرحدی علاقوں میں نشے کے عادی افراد کے کوئی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں تاہم عمر رفیع بتاتے ہیں کہ ان کی ریسرچ کے مطابق گلگت بلتستان، شاہ سلیم کوٹکوہ لوئر چترال میں سرحدی آبادی بھی بڑی تعداد میں نشے کی لت میں مبتلا ہے۔
افیون کے لیے محنت مزدوری
واخان کولی کے علاقے یاک اور دیگر مویشیوں کے لیے مشہور ہیں اور مقامی افراد کا ذریعہ معاش بھی مال مویشی پر ہی منحصر ہے۔ برغل میں بھی یاک اور دیگر مویشی آمدنی کا اہم ذریعہ ہیں۔
بروغل میں تعنیات ایک سرکاری اہلکار نے بتایا کہ یاک سے اچھی خاصی آمدنی ہوجاتی ہے لیکن لوگ اس آمدنی کا زیادہ تر حصہ افیون پر خرچ کردیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’افیون کی لت سے چھٹکارا پانا کافی مشکل ہے‘۔
علاقے کے ایک مقامی احمد خان (فرضی نام) نے بتایا کہ وہ بچپن سے ہی اس نشے کے عادی ہیں کیوں کہ ان کے والدین افیون استعمال کرتے تھے اور انہیں اس کی دھونی دیا کرتے تھے جس کی وجہ سے وہ بھی اس نشے کے عادی ہوگئے۔
انہوں نے کہا کہ میں امیر ٹاؤن جا کر ایسے گھروں میں کام کرنا پسند کرتا ہوں جہاں یومیہ اجرت کے بدلے میں افیون ملتی ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں اکیلا ہی نہیں بلکہ ایسے درجنوں مزدور ہیں جو پیسے کی بجائے افیون لے رہے ہیں کیونکہ آج کل اس کی افغانستان سے سپلائی نہ ہونے کے برابر ہے اور قیمتوں میں بھی بے حد اضافہ ہوچکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم لوگ جانوروں کی پرورش صرف اس لیے کرتے ہیں کہ انہیں بعد میں اچھی قیمت پر فروخت کیا جائے اور موسم سرما کے لیے افیون خرید لی جائے۔
نشے کی ایک بڑی وجہ
عمر رفیع اور وہاں تعنیات سرکاری اہلکار افغانستان کو پاکستان میں نشہ پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق سنہ 2023 تک افغان سرحدوں کا کوئی مؤثر نظام نہیں تھا اور افغانستان کی طرف کوئی اہلکار تک موجود نہیں ہوتے تھے جس کی وجہ سے منشیات پاکستان اسمگل ہوتی تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ بروغل اور دیگر علاقوں میں افیون افغانستان سے اسمگل ہوتی تھی تاہم گزشتہ سال اس میں کمی آئی اور افغان حکام نے اسمگلنگ کو کنڑول کیا جس کی وجہ سے اب 10 گرام افیون کی قیمت ایک ہزار روپے سے بڑھ کر 10 ہزار روپے تک پہنچ گئی ہے۔
سرکاری اہلکار اسمگلنگ میں ملوث
افغانستان سے افیون کی اسمگلنگ کم ہوجانے کے باعث بروغل کا انحصار اب لوئر چترال پر بڑھ چکا ہے۔ افغانستان سے مال دیگر راستوں سے اب چترال بازار پہنچ جاتا ہے اور پھر وہاں سے بروغل والوں کے ہاتھ لگتا ہے۔
ذرائع بروغل میں تعنیات مخلتف محکموں کے اہلکاروں کو ترسیل کا ذمے دار قرار دیا جاتا ہے۔ وہ اہلکار افیون کے بدلے سستے داموں مال مویشی لے لیتے ہیں۔ عمر رفیع نے بتایا کہ محکمہ تعلیم پولیس اور سیکیورٹی اداروں کے کچھ اہلکار اس کام میں ملوث ہوتے ہیں اور چوں کہ چیک پوسٹوں پر ان کی تلاشی نہیں ہوتی اس لیے وہ اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
’ڈھاک کے تین پات‘
سال 2004 میں آغا خان ہیلتھ سروس نے بروغل میں افیون کے عادی افراد کے علاج اور بحالی کا پروگرام شروع کیا تھا اور اس میں خواتین اور بچوں سمیت 300 سے زائد عادی افراد کا علاج کیا گیا تھا لیکن وہ پروگرام کچھ زیادہ کامیاب نہیں رہا۔
آغا خان ہیلتھ سروس حکام کا کہنا ہے کہ 80 فیصد سے زائد افراد نے علاج کے بعد نشے کا استعمال دوبارہ شروع کردیا جس کی وجہ سے اس پروگرام کو ختم ہی کردیا گیا۔
نشے کی لت کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟
مقامی افراد کے مطابق بروغل سمیت سرحدی علاقوں کی جانب حکومت کی توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
عمر رفیع کا خیال ہے کہ بروغل میں سیاحت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’گرمیوں میں یاک پولو اب کیلنڈر فیسٹول ہے اسی طرح سردیوں میں ونٹر سیاحت پر کام ہونا چاہیے‘۔
وہ کہتے ہیں کہ ان علاقوں میں صحت کی سہولیات پر توجہ کی ضرورت ہے کیوں کہ اگر علاج کی بہتر سہولیات میسر ہوں تو لوگ افیون کا سہارا کیوں لیں۔ انہوں نے کہا کہ بروغل میں قروم بھرا جھیل ہے لیکن سیاحوں کو وہاں آنے کی اجازت نہیں ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ سیاحت کو فروغ دے کر روزگار کے مواقع پیدا کیے جا سکتے ہیں جس کے ذریعے افیون کی لت پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *