کُرم کیلئے امدادی سمان تیسرے روز بھی روانہ نہ ہوسکا، امن معاہدے پردستخط نہ کرنے پرعمائدین گرفتار
پشاور(قدرت روزنامہ)ضلع کرم میں حالات بدستور کشیدہ ہونے سے متاثرہ علاقوں میں خوراک اور ادویات کی قلت پیدا ہوگئی، ضلع کیلئے تیسرے روز بھی امدادی سامان روانہ نہ ہوسکا اور 80 ٹرک کھڑے رہ گئے۔ ادھر مندوری میں دھرنا شرکا نے اٹھنے سے انکار کر دیا جبکہ امن معاہدے پردستخط نہ کرنے پر3عمائدین گرفتار کرلیا گیا ہے۔
سامان سے لدی گاڑیوں پر مشتمل قافلے کو تحصیل ٹل سے کرم کی جانب تاحال روانہ نہیں کیا جاسکا، خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے دفعہ 144 کے تحت حساس علاقوں میں کرفیو نافذ ہے۔
صوبائی حکومت کے مطابق ٹل سے پارا چنار اشیائے خوردونوش اور دیگر ضروریات زندگی پر مشتمل ٹرکوں کے قافلے روانہ کرنے کے انتظامات جاری ہیں، 80 گاڑیوں پر مشتمل امدادی قافلہ جلد پارا چنار روانہ کیا جائے گا۔
ادھر ضلع انتظامیہ کے مطابق امن معاہدے پردستخط نہ کرنے پر3عمائدین کو گرفتار کرلیا گیا، سیدرحمان، سیف اللہ، کریم خان نے تاحال امن معاہدے پردستخط نہیں کیے۔
ضلع انتظامیہ کے مطاب قاپیکس کمیٹی کے فیصلوں پرعمل درآمد یقینی بنایا جائے گا۔
خیبر پختونخوا حکومت کا کہنا ہے کہ اشیائے ضروریات پورا کرنے اور قافلہ پارا چنار پہنچانے کیلئے حساس علاقوں میں کرفیو نافذ ہوگا۔
پولیس کے مطابق پارا چنار میں جاری دھرنا ملتوی کردیا گیا اور شرکاء نے روڈ کو آمد و رفت کیلئے کلیئر کر دیا ہے، روڈ کلیئر ہوتے ہی چھپری سے پاراچنار کی جانب قافلہ روانہ کیا جائے گا۔
صدر انجمن تاجران کے مطابق 80 گاڑیوں پر مشتمل قافلے میں تمام سامان تاجر برادری کا ہے، حکومت اس کو امدادی قافلہ سمجھ رہی ہے لیکن اس میں ایک گاڑی بھی حکومت کی نہیں۔
دوسری جانب ضلع کرم میں پائیدار امن کے قیام کے لیے خیبر پختونخوا حکومت نے اہم اقدام کیا ہے، جس کے مطابق مشران کو امن معاہدے کے حوالے سے جوابدہ بنایا جائے گا۔
جاری اعلامیہ کے مطابق قافلے پر حملے میں ملوث ملزمان اور سرپرستوں کے خلاف انسدادِ دہشت گردی قانون کے تحت کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
خیبر پختونخوا حکومت کے اعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ ضلع کرم کے ڈپٹی کمشنر کے قافلے پر حملے کے بعد امن معاہدے پر دستخط کرنے والے عمائدین سے باز پرس ہوگی۔
امن معاہدے پر دستخط کرنے والے مشران کو 4 جنوری کے حملے کے مجرموں اور ان کی مدد کرنے والوں کو حوالے کرنے کی ہدایت کی گئی، عمل درآمد نہ ہونے پر اقدامات کیے جائیں گے۔
حکومتی اعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ ملزموں کی براہ راست کارروائی کی جائے گی، ٹل پارا چنار روڈ اور تور اوورائی، ششو روڈ پر سخت انتظامات کیے جائیں گے۔
صوبائی حکومت نے مجرموں کو حوالے نہ کرنے تک جائے وقوعہ کے علاقے میں ہر قسم کا معاوضہ اور امداد روکی جائے گی۔ فرقہ ورانہ انتشار کی پشت پناہی کرنے والے سرکاری ملازمین کے خلاف کارروائی ہوگی۔
اعلامیہ کے مطابق اگر امن و امان کی پاسداری نہ کی گئی تو شر پسندوں اور امن خراب کرنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا، چار جنوری کے واقعہ کے ملوث افراد کو حکومت کے حوالے نہ کیا گیا تو وقوعہ کے مقام پر سخت کارروائی ہوگی۔
اجناس کے قافلے کی نقل و حمل جلد کی جائے، ضلع کرم دفعہ 144 نفاذ ہوگی اور قافلوں کی آمد ورفت کے دوران سڑکو ں پر کرفیو ہوگا۔
اسلحہ رکھنے والا کوئی بھی شخص دہشت گرد تصور کیا جائے ۔ مجرموں کے حوالے کرنے کے سلسلے میں مزید خلاف وزری، عدم تعاون کی صورت میں کلئیرنس آپریشن ہوگا، ضرورت پڑنے پر وقوعہ پر مقام آبادی کو منتقل کیا جائے گا۔
جاری اعلامیہ کے مطابق مختلف خوارج کی سر کی قیمت کا اعلان کیا جائے گا ۔ ڈی پی او کرم کو انسداد فسادات کے آلات، خواتین پولیس اور مطلوبہ و وسائل فراہم کیے جائیں گے۔
پولیس ٹل پارا چنار روڈ پر کسی بھی غیر قانونی ناکہ بندی ہجوم کو ہٹائے گی، سیکیورٹی روڈ کے لیے پولیس کو مطلوبہ تعداد فراہم کی جائے گی۔ پولیس کی مدد کے لیے قانون نفاذ کرنے والے دیگر ادارے بشمول ایف سی کو ضرورت کے مطابق تعینات کیا جائے گا۔
علاوہ ازیں ضلع میں کرم حالات بدستور کشیدہ ہیں، متاثرہ علاقوں میں خوراک اور ادویات کی قلت پیدا ہوگئی، اشیا خورد ونوش سے لدے ٹرک تین بعد بھی روانہ نہ ہوسکے۔
خیبر پختونخوا نے کل سے ضلع بھر میں دفعہ 144 نفاذ کردی ہے اور حالات کو معمول پر لانے کے لیے سیکیورٹی اداروں کے ساتھ ملکر ماحول سازگار بنا رہا ہے۔
ترجمان خیبر پختونخوا حکومت بیرسٹر محمد علی سیف کا کہنا ہے کہ انتظامیہ حالات پر نظر رکھے ہوئے حالات سازگار ہوتے ہی اشیائے خوردو نوش کی گاڑیاں روانہ کردی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہیلی کاپٹر کے ذریعے خوارک اور ادویات کی تقسیم اور لوگوں کو منتقل کرنے کا عمل جاری تھا لیکن مسلسل 50 گھنٹے استعمال کرنے کے بعد ہیلی کاپٹر کی سروس کرنا پڑتی ہے جس پر دو دن لگتے ہیں۔