کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں ادویات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ


کوئٹہ(قدرت روزنامہ)صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں ادویہ ساز کمپنیوں کو قیمتوں کے تعین کا اختیار دینے کے بعد سرکاری کنٹرول کا نظام ختم کر دیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں 80 ہزار سے زائد ادویات کی قیمتیں 200 فیصد سے زائد بڑھ چکی ہیں۔ میڈیکل ڈیوائسز پر بھی 70 فیصد تک ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے، جس کا سارا بوجھ عوام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔یو این اے کی رپورٹ کے مطابق، بلوچستان بھر میں عوام کی مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے کیونکہ نہ صرف علاج مہنگا ہوگیا ہے بلکہ ادویات کی قیمتوں میں بھی بے تحاشا اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ نگران حکومت نے ادویات کی قیمتوں کو ڈی ریگولیٹ کرنے کا فیصلہ کیا تھا، جسے موجودہ حکومت نے برقرار رکھا۔ اس فیصلے کے بعد انسولین، ٹی بی، کینسر اور دل کے امراض کی ادویات کی قلت تو ختم ہوگئی لیکن قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوگیا۔فارما ایڈووکیٹ محمد نور مہر نے 2024 کو بدقسمت ترین سال قرار دیتے ہوئے کہا کہ 18 فروری 2024 کو نگران حکومت نے ادویات کی قیمتوں کا کنٹرول اور نظام ختم کیا جس کے نتیجے میں 80 ہزار سے زائد ادویات کی قیمتیں مہنگی ہوگئیں اور میڈیکل ڈیوائسز پر 65 سے 70 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا۔پاکستان کی فارما مارکیٹ کا حجم 960 ارب روپے ہے، اور نئے ٹیکسوں کا اضافی بوجھ بھی عوام کو ہی برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، اینٹی بایوٹک، پین کلرز، شوگر کی ادویات اور دیگر ضروری دوائیں 100 سے 200 فیصد تک مہنگی ہوگئیں، جس کے نتیجے میں میڈیکل اسٹورز پر دکاندار اور خریدار قیمتوں میں تبدیلیوں کے باعث الجھتے نظر آتے ہیں۔پاکستان کیمسٹس اینڈ ڈرگسٹس ایسوسی ایشن نے ادویات کی قیمتوں میں بے جا اضافے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ چیئرمین پی سی ڈی اے عبدالصمد خان کا کہنا ہے کہ ڈی ریگولیشن کے نتیجے میں نان اسینشل ادویات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔لاہور کے شہریوں کا کہنا ہے کہ قیمتوں میں ہر ہفتے، 15 دن یا 30 دن کے وقفے سے تبدیلی کی جارہی ہے، جس سے شوگر، بلڈ پریشر، امراض قلب، ذہنی صحت کی ادویات کے ساتھ ساتھ بخار اور اینٹی بایوٹکس بھی مہنگی ہوگئیں۔ میڈیکل اسٹور مالکان کا کہنا ہے کہ پہلے 2 ہزار روپے والا کورس اب 6 سے 7 ہزار روپے تک پہنچ چکا ہے۔حکام کا موقف ہے کہ ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی مانیٹرنگ کی جارہی ہے، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ فارماسیوٹیکل کمپنیوں کو ادویات کے ریٹس خود مقرر کرنے کے اختیار کا غلط استعمال روکنے کی ضرورت ہے، ورنہ عوام کے ساتھ ساتھ حکومت کو بھی شعبہ صحت میں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے مرکزی رکن ڈاکٹر اشرف نظامی نے کہا کہ فارماسیوٹیکل کمپنیوں نے ناجائز منافع کمانے کے لیے ادویات کی قیمتوں میں 300 فیصد تک اضافہ کیا ہے، جس سے سفید پوش افراد کے لیے ادویات خریدنا ناممکن ہوگیا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *