دہشت گردی کے شکار سپاہیوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں کیوں نہیں چلتے؟، جسٹس جمال مندوخیل

اسلام آباد(قدرت روزنامہ)سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سویلیز کے فوجی ٹرائل سے متعلق فیصلے کیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کردی۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے سماعت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سویلین کا فوجی ٹرائل ہوسکتا ہے، ایف بی علی کیس میں طے ہوچکا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا موجودہ کیس میں نو مئی والے ملزمان تو آرمڈ فورسز سے تعلق نہیں رکھتے، ہم صرف شہری کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ عدالت نے پنجاب حکومت سے سزا یافتہ قیدیوں کی نقل و حرکت کی آزادی پر رپورٹ طلب کرلی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیتے کہا ہے کہ روزانہ فوجی جوان شہید ہورہے ہیں، ہمیں شہداء کا احساس ہے، سوال یہ ہے ان شہداء کے مقدمات فوجی عدالتوں میں کیوں نہیں چلتے؟، اگر کوئی محض ایک سوچ رکھتا ہو کیا اس کیخلاف کیس ملٹری کورٹس میں چلے گا؟، کون سے کیسز آرٹیکل 8 کی ذیلی شق 3 کے تحت فوجی عدالتوں میں چلیں گے؟۔

سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ کے روبرو فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی، وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیئے۔

خواجہ حارث کا کہنا ہے کہ عدالتی فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 8 کی ذیلی شق 3 اور 5 کی غلط تشریح کی گئی، ایف بی علی کیس میں طے ہوچکا کہ سویلین کا فوجی عدالت میں ٹرائل ہوسکتا ہے، دونوں ذیلی شقیں یکسر مختلف ہیں انہیں یکجا نہیں کیا جاسکتا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ روزانہ فوجی جوان جانیں قربان کررہے ہیں، شہداء کا احساس ہے مگر ان شہداء کے مقدمات فوجی عدالتوں میں کیوں نہیں چلتے۔

خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ غلط تشریح کی بنیاد پر کہہ دیا گیا کہ ایف بی علی کیس الگ نوعیت کا تھا، ایف بی علی پر ریٹائرمنٹ کے بعد ٹرائل چلایا گیا تھا جب وہ سویلین تھے، فیصلے میں کہا گیا جرم سرزد ہوتے وقت ریٹائر نہیں تھے اس لئے کیس الگ ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ دیکھتے ہیں اس پر ہم آپ سے اتفاق کرتے ہیں یا نہ کریں، موجودہ کیس میں 9 مئی والے ملزمان تو آرمڈ فورسز سے تعلق نہیں رکھتے، آج کل ایک اصطلاح ایکس سروس مین کی بھی ہے، یہ لوگ تو ایکس سروس مین بھی نہیں تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ چلیں ہم صرف شہری کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں، سوال یہ ہے سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کس حد تک ہوسکتا ہے؟۔ جسٹس مسرت ہلالی سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل اے پی ایس جیسے مجرمان کیلئے تھا، کیا تمام سویلینز سے وہی برتاؤ کیا جاسکتا ہے جیسے اے پی ایس سانحہ میں کیا گیا؟، پاکستان کا آئین معطل نہیں ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ یہ بتائیں ملٹری کورٹس سے متعلق بین الاقوامی پریکٹس کیا ہے؟۔ وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر میں مثالیں پیش کروں گا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا اگر کوئی محض ایک سوچ رکھتا ہو کیا اس کے خلاف کیس ملٹری کورٹس میں چلے گا؟ کون سے کیسز آرٹیکل 8 کی ذیلی شق 3 کے تحت فوجی عدالتوں میں چلیں گے؟۔

جسٹس نعیم اختر افغان کا وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث سے مکالمہ ہوا، جسٹس نعیم نے کہا کہ خواجہ صاحب لگتا ہے آپ کی تیاری مکمل نہیں، 5 رکنی بینچ نے آرمی ایکٹ کی کچھ دفعات کالعدم کی ہیں، اگر ہم بھی کالعدم رکھیں پھر تو سویلین کا فوجی ٹرائل ہو ہی نہیں سکتا، اگر ہم کسی اور نتیجے پر پہنچے تو طے کرنا ہوگا کون سے سویلین کا فوجی ٹرائل ہوسکتا ہے؟۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اب آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں بھی ترمیم بھی ہوچکی، اس کی روشنی میں بتائیں، کل جسٹس جمال مندوخیل نے فوجی چوکی کی مثال دے کر سوال اسی لئے پوچھا تھا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہ قانون بنانا بلاشبہ پارلیمنٹ کا اختیار ہے کہ کیا کیا چیز جرم ہے؟، پارلیمنٹ چاہے تو کل قانون بنا دے ترچھی آنکھ سے دیکھنا جرم ہے، اس جرم کا ٹرائل کہاں ہوگا وہ عدالت قائم کرنا بھی پارلیمنٹ کی آئینی ذمہ داری ہے، آئین پاکستان پارلیمنٹ کو یہ اختیار اور ذمہ داری دیتا ہے، کہا جاتا ہے پارلیمنٹ سپریم ہے، میرے خیال میں آئین سپریم ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *