اگلی نشست تک عدالتی کمیشن نہیں بنا تو مذکرات روک دیں گے، عمران خان
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان نے حکومت کو متنبہ کیا کہ اگر مذاکرات کی اگلی نشست تک جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نہ کی گئی تو پھر وہ مذاکرات کے عمل کو آگے نہیں بڑھائیں گے۔
اڈیالہ جیل میں بدھ کو میڈیا اور وکلا ٹیم سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان کہا کہ 9 مئی اور 26 نومبر پر شفاف جوڈیشل کمیشن بننا ناگزیر ہے اور میں اس واقعے کو تب تک بھولنے نہیں دوں گا جب تک مظلوموں کو انصاف نہ مل جائے۔
’6 ہفتے گزرنے کے باوجود کئی کارکنان اب تک لاپتا ہیں‘
بانی چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ 26 نومبر کو آج پورے 6 ہفتے ہو گئے لیکن ہمارے کئی لوگ ابھی تک گمشدہ ہیں جبکہ وہ ڈی چوک اسلام آباد سے غائب کیے گئے ہیں کسی قبائلی علاقے سے نہیں۔
عمران خان نے کہا کہ حکومت ان کو کسی عدالت میں پیش کر رہی ہے نہ ہی ان کو تلاش کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت ہمارے مطالبات اور مذاکرات کے سلسلے میں کتنی سنجیدہ ہے۔
گمشدہ افراد کے لیے کمیٹی کا قیام
عمران خان نے کہا کہ ہم نے آج گمشدہ افراد کے معاملے پر کمیٹی بنا دی ہے جس کی سربراہی سینیئیر وکیل قاضی انور کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ 26 نومبر کو ہمارے لوگوں کو سیدھی گولیاں مارنے، 64 لوگوں کو زخمی اور 14 لوگوں کو شہید کرنے کی شفاف تحقیقات کی جائیں۔
بانی چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ میں اپنی پارٹی کے لوگوں کو تلقین کرتا ہوں کہ ہمارے مسنگ پرسنز کا معاملہ ہر سطح پر اٹھائیں۔
عمران خان نے کہا کہ یہاں تحقیقات تو کیا ہونی ہیں الٹا انہی مظلوم افراد کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کوٹلی ستیاں سے ہمارے 17 سالہ کارکن انیس شہزاد ستی کو شہید کیا گیا پھر اس کے غمزدہ خاندان کو ہراساں کیا گیا کہ وہ اپنا کیس واپس لیں اور یہی سب کچھ 9 مئی کو بھی کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ میرے مطالبات جائز اور معقول ہیں لیکن حکومت ان پر سنجیدہ نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مجھے میری جماعت کے افرد سے ملوایا نہیں جاتا جو کہ میرا قانونی حق ہے۔
بشریٰ بی بی سب کچھ میرے لیے کر رہی ہیں‘
عمران خان نے بشریٰ بی بی کے خلاف مہم کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ میری اہلیہ جو کچھ بھی کر رہی ہیں میری ذات کے لیے کر رہی ہیں-
انہوں ںے کہا کہ سنجگانی جیسے شوشے چھوڑ کر اصل معاملات سے توجہ ہٹائی جاتی ہے جبکہ ڈی چوک میں کارکنان کے ہمراہ پہنچ جانا بشریٰ بی بی کی کامیابی تھی جس پر میں ان کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔
’10 سالہ آمریتی نظام کے 2 سال گزر گئے‘
عمران خان نے کہا کہ پاکستان میں آمریت کا 10 سالہ پلان لایا گیا تھا جس میں سے 2 سال گزر چکے ہیں۔ انہوں ے مزید کہا کہ یہاں جو جج یا پولیس والا ظلم کا حصہ بنتا ہے اس کو ترقی دے دی جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمایوں دلاور نے غیر قانونی فیصلہ دیا تو ان کو ترقی دے دی گئی دوسری جانب راولپنڈی، سرگودھا کے ججز نے انصاف پر مبنی فیصلے دیے تو ان کو گھر بھیج دیا گیا ایسا کر کے ملک میں میرٹ اور قانون کی حکمرانی کو قتل کر دیا گیا ہے۔
’فسطائی نظام کے ہوتے ہوئے معاشی ترقی نہیں ہوگی‘
عمران کان نے کہا کہ ملک میں موجود اس فسطائی نظام کے ہوتے ہوئے معاشی ترقی کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا کیوں کہ معاشی خوشحالی کے لیے سرمایہ کاری ضروری ہے اور سرمایہ کاری ملک میں اداروں کی جانب سے اپنی حدود و قیود میں رہتے ہوئے اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کیے بغیر ممکن نہیں۔
’دہشتگردی سے نمٹنے والے ہماری پارٹی کو دیوار سے لگانے میں مصروف ہیں‘
انہوں ںے کہا کہ ملک میں بڑھتی دہشتگردی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہی ہے اور افسوسناک امر تو یہ کہ اس کے تدارک کے ذمہ داران کی ساری توانائیاں اور وسائل ہماری جماعت کو دیوار سے لگانے میں صرف ہو رہی ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ اپنی ذاتی اناؤں اور وقتی مفادات سے ہٹ کر ملکی ترقی اور قوم کی خوشحالی کا سوچا جائے۔