نام نہاد ماڈل شہر جہاں سانس لینا محال ہوتا جا رہا ہے


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)گزشتہ چند سالوں سے پاکستان کے تمام ہی بڑے اربن سینٹرز کو شدید ماحولیاتی دباو کا سامنا ہے، سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی آلودہ فضا، بلند ترین ایئرکوالٹی انڈیکس اور اسموگ سے لاہور، کراچی، پشاور کوئٹہ سمیت تمام بڑے شہر متاثر ہو رہے ہیں، ان تمام شہروں کے مقابلے میں بہتر گرین ایریا کے باوجود اسلام آباد بھی مضر صحت ایئر کوالٹی انڈکس میں پاکستان بھر میں سرفہرست شہروں میں شامل ہوچکا ہے جہاں انڈیکس گزشتہ ایک ماہ کے دوران 200سے 300کے در میان برقرار ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے معیار کے مطابق صحت مند فضا کے لیے یہ انڈیکس 30سے 50کے درمیان ہونا چاہیے۔ وفاقی دارالحکومت کی فضائی آلودگی کی وجوہات کیا ہیں، انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی اس حوالے سے کیا اقدامات کر رہی ہے، مسلسل اور بغیر منصوبہ بندی کے تعمیرات کے اسلام آباد کی ماحولیات کے مستقبل کو کیا سنگین خطرات درپیش ہیں؟
ماڈل سٹی سے بے ہنگم پھیلائو تک، اسلام آباد کا تعمیراتی زوال ماحولیات کے لیے تباہ کن ہے
اسلام آباد پاکستان کا سب سے ماڈل ترین شہر مانا جاتا ہے جہاں ابتدا سے ہی سیکٹرز کی تعمیر ایک ماسٹر پلان کے تحت کی گئی مگر حالیہ سالوں میں نجی ہاوسنگ سوسائٹیز کا طوفان اس ماڈل سٹی کو پاکستان کے کسی بھی دوسرے اربن سینٹر کی طرح کا ”بغیر منصوبہ بندی کے پھیلاو کا شکار ایک شہر بنا رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2001سے لیکر 2024تک 23سالوں میں 13ہیکٹر”گرین کور” سے محروم ہو چکا ہے، جس کا مطب ہے کہ شہر میں درختوں اور گرین ایریا کی تعداد مسلسل کم ہو رہی ہے۔ شہر میں جگہ جگہ ہاوسنگ سوسائٹیز کے اشتہاری بورڈز اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ شہر کے بے ہنگم پھیلاو کا یہ رجحان آئندہ سالوں میں مزید بڑھے گا اور گرین ایریا کور مزید کم ہوگا جو ایئر کوالٹی انڈیکس کو ناقابل تصور حد تک بڑھا سکتا ہے۔
ْماسٹر پلان سے روگردانی دار الحکومت کی ماحولیات کو تباہ کر رہے ہیں
اسلام آباد کا بطور شہر ماسٹر پلان ایک منظم اور جدید ماڈل شہر کا تصور اجاگر کرتا ہے مگر نقشے پرشہر کئی سو کلو میٹر پھیلنے کے بعد کچھ اور ہی کہانی بیان کر رہا ہے۔ اس حوالے سے سربراہ انوائرمنٹل ڈپپارٹمنٹ قائد اعظم یونیورسٹی ڈاکٹر سہیل یوسف نے وی نیوز کو بتایاکہ اربنائزیشن بذات خود شہر کی فضا خراب کرنے کا ایک بڑا سبب ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں شہروں کا پھیلاو جو بغیر منصوبہ بندی کے ہو رہا ہے اس نے ماحولیات کو مزید تباہ کر دیا ہے۔ بغیر منصوبہ بندی کے شہروں کا پھیلاو گرین ایریا کو کم کرتا ہے، اس سے ماحول کو درکار ضروری گیس ختم ہو تی ہے، گاڑیاں بڑھ جاتی ہیں، وہ بھی کاربن میں اضافے کا سبب بنتی ہیں، اسی لیے جب شہر پھیلے گا تو یہ تباہی ساتھ آئے گی۔
اسلام آباد کو کنکریٹ کا پہاڑ بننے سے بچایا جائے
ڈاکٹر سہیل یوسف کے مطابق دنیا بھر میں ہائی رائز کا رجحان ہے مگر پاکستان میں بالخصوص اسلام آباد میں بڑے بڑے اور سنگل گھروں کا شوق ہمیں مہنگا پڑ رہا ہے۔ اسلام آباد چاروں طرف سے پھیل رہا ہے اور اس میں گرین ایریا کا سب سے کم خیال رکھا جا رہاہے۔ ایسا لگتا ہے عمل درآمد سے متعلق ایجنسیوں کی ترجیحات میں بھی یہ چیز شامل نہیں ہے۔ نئی سوسائٹیز اور سیکٹرز کی تعمیر میں گرین ایریا کا خصوصی خیال رکھنا چاہیے، شہروں کا پھیلنا مسئلہ نہیں مگر یہ سب ماسٹر پلان کے تحت ہونا چاہیے۔ پبلک ٹرانسپورٹ پر توجہ دی جائے، گاڑیوں کو کلین انرجی پر شفٹ کیا جائے، ہمارے ہاں 60فیصد سے زیادہ گاڑیاں فوسل فیول پر چلتی ہیں۔
فضائی آلودگی جانچنے کے لیے پاکستان انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی کی صلاحیت پر سوالات ہیں
اسلام آباد میں قائم پاکستان انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی (پاک -ای پی اے) فضائی معیار کی بہتری کے لیے اقدامات کرنے سے قاصر ہے۔ اسلام آباد کا ایئر کوالٹی کتنا خراب ہے؟ ای پی اے کی اس کو جانچنے کی صلاحیت پر ہی سوالات اٹھتے ہیں، ای پی اے میں نصب فضائی آلودگی جانچنے کے سینسرز کی کارکردگی بھی تسلی بخش نہیں ہے۔ ناقص کارکردگی کی وجہ سینسرز کی بروقت مرمت کے اقدامات نہ ہونا ہے۔ کئی سال قبل حکومت جاپان کے تعاون سے ای پی اے میں سینسرز نصب کیے گئے تھے جن کی وقتاً فوقتاً مرمت کی ضرورت ہوتی ہے تاہم اس ضمن میں بروقت اقدامات نہیں کیے گئے جس سے سینسرز کی کارکردگی متاثر ہو رہی ہے۔
لاہور کی طرز پر اسموگ ٹاورز کی تنصیب کیا ایئر کوالٹی بہتر بنانے کا ایک حل ہے؟
ڈاکٹر سہیل یوسف کے مطابق مصنوعی بارشیں، اسموگ ٹاور کی تنصیب اور اس جیسے دوسرے اقدامات نہ تو پائیدار حل ہیں اور نہ بڑے شہروں میں اس کا کوئی خاص اور مستقل اثر پڑتا ہے۔ پاکستان کے پاس ایئر کوالٹی ماپنے کے جدید ترین آلات ہیں۔ بارشیں برسانے جیسے اقدامات پر جتنا خرچہ آتا ہے اس سے بہتر ہے حکومت پالیسی کے نفاذ کو یقینی بنائے۔ ایئر پولوشن کوکم کرنے کے حوالے سے کئی شہروں کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ایئر کوالٹی انڈکس کو خراب کرنے کی بڑی وجہ ٹرانسپورٹ ہے، گاڑیوں کی حالت ناقابل قبول ہے، پبلک ٹرانسپورٹ کو بہتر کیا جانا چاہیے۔
پاکستان کی اکڈیمیا سے فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لیے کوئی قابل عمل منصوبہ سامنے کیوں نہیں آ رہا
دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے بڑے تعلیمی ادارے ریسرچ کر رہے ہیں۔ جدید معاشروں میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کی تحقیقات پر بہت انحصار کیا جاتا ہے۔ کیا پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی کے موضوع پر کوئی سنجیدہ ریسرچ کی جا رہی ہے؟ چیئرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر مختار نے وی نیوز کو بتایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ موسمیاتی تبدیلیاں اور فضائی آلودگی جیسے مسائل پر کام کرنا ایچ ای سی کی ترجیحات میں شامل ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ یونیورسٹیز اس مسئلے پر کام کریں، ہماری ریسرچ کو ”کلائمنٹ سینٹرک”بنایا جائے۔ اس سوال پر کہ کیا ایچ ای سی نے کوئی واضح پالیسی دی ہے اعلیٰ تعلیمی اداروں کو ڈاکٹر مختار نے بتایا کہ پاکستانی اداروں میں اب انوائرمنٹ کے موضوع پر پی ایچ ڈی تک کروائی جا رہی ہے، ایچ ای سی موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے ریسرچ کی خصوصی فنڈنگ بھی کر رہی ہے۔ ایچ ای سی فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لیے خصوصی اسٹڈی بھی کروا چکی ہے۔
پاکستانی اکڈیمیا کی محدود استعداد اس راستے میں بڑی رکاوٹ ہے
ڈاکٹر سہیل یوسف کے مطابق اکڈیمیا میں موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے کام تو ہو رہا ہے، مگر اس کی استعداد محدود ہے، ابھی اس سطح کا کام نہیں ہو رہا، ہماری اکڈیمیا کو مسائل کے حل پر مبنی ریسرچ کرنے کی ضرورت ہے مگر ایسا ہو نہیں رہا۔ مگر میرے خیال میں اصل مسئلہ ریسرچ سے زیادہ عمل درآمد کا ہے، حکومتی سطح پر لاس حوالے سے ایک کنسورشیم بنانے کی ضرورت ہے جس میں اکڈیمیا، انڈسٹری، فیصلہ ساز اور عمل درآمد کرانے والے ادارے شامل ہوں۔ ہمارے ہاں مینوفیکچرنگ کا مسئلہ ہے، اگر اکیڈمیا کوئی ریسرچ کرتی بھی ہے تو اسی کی کمرشل مینوفیکچرنگ تو انڈسٹری نے ہی کرنی ہے اس لیے اس مسئلے کا بہتر حل ایک نیشنل سطح کے ادارے سے سامنے آسکتا ہے۔
نیشنل کلین ایئر کوالٹی پر عمل درآمد کے لیے پالیسی گائیڈ لائز کیا ہیں
وفاقی حکومت نے حال ہی میں کاربن مارکیٹس میں ٹریڈنگ کے لیے پاکستان پالیسی گائیڈ لائنز کی منظوری دی ہے۔ نیشنل کلین ایئر کوالٹی پر عملدرآمد سے فضائی آلودگی کواسی فیصد تک کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ پلاننگ کمیشن آف پاکستان کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث زیر زمین پانی کے ذخائر میں تیزی سے کمی رونما ہو رہی ہے اثرات کو کنٹرول نہ کیا تو سال 2080تک زمین کا درجہ حرارت میں 2سے 4ڈگری مزید اضافے کا خدشہ ہے، پلاننگ کمیشن کے مطابق نیشنل کلین ائیر پالیسی کے تحت ٹرانسپورٹ، زراعت اور صنعتی دھوئیں کو 81فیصد کنٹرول کیا جا سکتا ہے پانی ذخیرہ کرنے کی کم صلاحیت، ناقص ایریگیشن سسٹم جیسے مسائل کو حل کرنے کے لیے اقدامات ناگزیر ہیں جبکہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث متعدد فصلوں کی پیداواری گروتھ تاحال بہتر نہیں ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *