ملک میں گدھے اور کتے کے گوشت، جعلی دودھ اور پلاسٹک کے چاول فروخت، حقیقت کیا ہے؟
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ سینیٹر ایمل ولی نے سینیٹ کمیٹی کی قائمہ کمیٹی برائے نیشنل فوڈ اینڈ سیکیورٹی میں پاکستان میں استعمال ہونے والے دودھ اور گوشت کے بارے میں حیران کن مگر تشویشناک دعوے کیے ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان میں دودھ کی جتنی پیداوار ہے اس سے کئی گنا زیادہ دودھ استعمال ہو رہا ہے اور مارکیٹ میں استعمال ہونے والا 78 فیصد دودھ کیمیکل والا سفید پانی ہوتا ہے۔
انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ ملک میں پلاسٹک کے چاول فروخت کیے جا رہے ہیں جبکہ ملک کے مختلف حصوں میں کتوں، گدھوں اور مینڈکوں کا گوشت فروخت کیا جا رہا ہے۔
ایمل ولی کے اس بیان کے بعد بحث ہو رہی ہے کہ اس بیان کی حقیقت کیا ہے اور کیا واقعی پاکستان میں گدھے اور کتے کا گوشت اور پلاسٹک کے چاول فروخت ہو رہے ہیں، اور 78 فیصد دودھ کیمیکل سے بنا ہے؟
پاکستان ڈیری فارمرز ایسوسی ایشن، میٹ انڈسٹری کے ایک ماہر اور رائس مل مالک سے گفتگو کی ہے اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ ایمل ولی کے اس بیان کی حقیقت کیا ہے۔
پاکستان ڈیری فارمرز ایسوسی ایشن کے چیف آرگنائزر شہباز رسول وڑائچ نے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دودھ میں سے جب فیٹ اور غذائیت نکال لی جاتی ہے تو پیچھے جو سفیدی بچ جاتی ہے اسے پاؤڈر فارم میں تبدیل کر کے خشک دودھ کا نام دیا جاتا ہے، اسی پاؤڈر میں بعد ازاں کیمیکل اور پانی شامل کر کے اس سے دودھ بنایا جاتا ہے جو دوبارہ مارکیٹ میں فروخت کیا جاتا ہے۔ ان کے مطابق موسم سرما میں تقریباً 55 فیصد دودھ جبکہ موسم گرما میں 70 سے 75 فیصد خشک دودھ اور کیمیکل سے بنا دودھ فروخت کیا جاتا ہے۔
پاکستان ڈیری فارمرز ایسوسی ایشن کے چیف آرگنائزر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جانوروں یا دودھ سے متعلق جو بھی اعداد و شمار پیش کیے جاتے ہیں وہ سب حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ پاکستان میں مویشیوں کی سرکاری گنتی آخری مرتبہ تقریباً 20 سال پہلے 2005 اور 2006 میں کی گئی تھی۔ اس گنتی کے بعد اندازوں کی بنیاد پر اعداد و شمار پیش کیے جاتے ہیں، تاہم یہ بات درست ہے کہ پاکستان میں دودھ کی جو پیداوار حاصل کی جا رہی ہے وہ ڈیمانڈ کا 25 فیصد ہی پورا کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ 5 فیصد ڈبے والا دودھ استعمال کیا جاتا ہے جبکہ اس کے علاوہ خشک دودھ استعمال کیا جاتا ہے جسے کیمیکل والا دودھ بھی کہا جاتا ہے۔
شہباز رسول وڑائچ نے بتایا کہ سردیوں میں مویشیوں سے حاصل ہونے والی دودھ کی پیداوار میں اضافہ ہو جاتا ہے جس سے تازہ دودھ کی مارکیٹ 25 فیصد سے بڑھ کر 40 فیصد تک پہنچ جاتی ہے جبکہ گرمیوں میں چونکہ جانوروں کے دودھ کی پیداوار کم ہوتی ہے اس لیے یہ 40 فیصد سے کم ہو کر 25 فیصد تک آ جاتی ہے۔ دودھ کی زیادہ ڈیمانڈ کے باعث مارکیٹ میں خشک دودھ کا استعمال 80 فیصد تک ہو جاتا ہے۔
صحت مند گوشت کے حوالے سے آگاہی دینے والے ایک ادارے سگنیچر میٹ کے بانی راجہ لطیف نے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر ایمل ولی کے دعوے کی تردید کی ہے۔ ان کا کہنا کہ اس وقت آپ پورے پاکستان کا سروے کریں آپ کو کہیں سے گدھے، کتے یا مینڈک کا گوشت فروخت ہوتا نہیں ملے گا۔ یہ سب افواہیں اور سوشل میڈیا کا پروپیگنڈا ہے، 2015 سے 2016 میں لاہور میں گدھے کا گوشت بعض جگہ فروخت کیا جاتا تھا تاہم اب ایسا نہیں ہے، جبکہ گدھوں کو ذبح کرنے کی جو ویڈیوز سامنے آتی ہیں وہ دراصل چین کی ہیں جہاں گدھوں کی کھال ایکسپورٹ کی جاتی ہے۔
راجہ لطیف نے کہا ہے کہ اب تو حکومت نے گوادر میں گدھوں کا ایک بڑا ذبح خانہ بنایا ہے جہاں گدھوں کو ذبح کر کہ چین بھیجا جاتا ہے، اس کے علاوہ کسی مقام پر گدھوں کو ذبح کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں خوراک کے حوالے سے تبدیلی آئی ہے، کھلے دودھ سے لوگ پیکٹ والے دودھ کی طرف منتقل ہونا شروع ہو گئے، صاف اور تازہ پانی سے لوگ منرل واٹر کی طرف منتقل ہو گئے، تاہم اب بھی ملک بھر میں گوشت پھٹے پر قصائی سے ہی خریدا جاتا ہے۔ لوگ گوشت کی برینڈ والی دکانوں سے خریداری کرنے سے اجتناب کرتے ہیں۔
ان کے مطابق اب تو لوگوں میں گوشت کی اتنی پہچان ہے کہ وہ نر اور مادہ جانور کا گوشت بھی پہچان لیتے ہیں اور صحیح جانچ کے بعد تازہ گوشت خریدا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پنجاب فوڈ اتھارٹی اور اسلام آباد فوڈ اتھارٹی جیسے اداروں کے ہوتے ہوئے کسی حرام جانور کا گوشت فروخت کرنے یا حتیٰ کہ ذبح کرنے کا رسک بھی کوئی نہیں لے سکتا۔
ایمل ولی کے پلاسٹک کے چاول مارکیٹ میں فروخت ہونے سے متعلق بیان پر ہم نے ایک رائس مل کے مالک سردار عمیر حیدر سے گفتگو کی اور ان سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا پاکستان میں پلاسٹک سے چاول تیار کیا جاتا ہے؟
ہمارے سوال پر سردار عمیر حیدر نے بتایا کہ پلاسٹک سے چاول تیار ہی نہیں ہو سکتا، پاکستان میں تیار ہونے والا چاول بڑی تعداد میں بیرون ملک ایکسپورٹ کیا جاتا ہے جسے پسند بھی کیا جاتا ہے۔
سردار عمیر حیدر نے کہا کہ پاکستان میں چاولوں کی مختلف اقسام کاشت کی جاتی ہیں جن میں باسمتی چاول کو بہت پسند کیا جاتا ہے۔ تاہم کچھ ہائبرڈ چاول ہیں جو کہ کھانے میں سخت ہوتے ہیں جن کے بارے میں کوئی عام شخص کہہ سکتا ہے کہ شاید یہ کوئی ربڑ یا پلاسٹک ہے، جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ وہ چاولوں کی ہی ایک ہائبرڈ قسم ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ چونکہ پرانا چاول زیادہ پسند کیا جاتا ہے اور اس کا ریٹ بھی زیادہ ہوتا ہے تو چاولوں کو اسٹور کرنے کے لیے ان پر سپرے کیا جاتا ہے جس سے چاولوں میں ٹاکسیٹی بن جاتی ہے لیکن پلاسٹک سے نہ چاول تیار ہوتا ہے اور نہ ہی مارکیٹ میں ایسا کوئی چاول دستیاب ہے۔