کیا دریائے سندھ سونا اُگل رہا ہے؟
سندھ (قدرت روزنامہ)تبت سے پاکستان کی جانب بہنے والے دُنیا کے قدیم ترین اور طویل ترین دریاؤں میں سے ایک دریائے سندھ اب مبینہ طور پر روزانہ کروڑوں روپے کا ‘سونا اگل رہا ہے’۔ یہ تاریخی دریا وادی سندھ کی تہذیب کے عروج کا لازمی جزو ہے، یہ دریا نہ صرف پاکستان بلکہ دُنیا کی قدیم ترین ثقافت کا بھی حصہ ہے۔
3300 اور 1300 قبل مسیح کے درمیان ہڑپہ تہذیب نے بھی دریاے سندھ ہی کے کناروں پر آباد کاری کی، ہڑپہ تہذیب اپنے دور کی سب سے خوشحال اور سنہری دور کی نشاندہی کرتی ہے۔
میڈیا رپورٹس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اس قدیم دریا سے اتنی غیر معمولی مقدار میں سونا نکلنے لگا ہے کہ اس نے بہت سے لوگوں کو حیران کر دیا ہے اور دیوالیہ ہونے والی پاکستانی معیشت کے لیے ایک ’جیک پاٹ‘ کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔
معاشی طور پر دیوالیہ پاکستان کے لیے یہ دریا جیک پاٹ ثابت ہو رہا ہے، دریا میں سونے کے بہت بڑے ذخائر مل گئے ہیں، جس کی قیمت کروڑوں روپے ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق قدیم دریائے سندھ، جو اپنی تاریخی اہمیت کی وجہ سے مشہور ہے اور اب مبینہ طور پر سونا اگل رہا ہے‘ 1947 میں تقسیم ہند سے پہلے مکمل طور پر ہندوستانی علاقے میں تھا۔ اس وقت یہ دریا تبت سے گزرکر پاکستان کی جانب بہہ رہا ہے۔
وادی سندھ کی تہذیب کے گہوارہ کے طور پر جانا جانے والا یہ دریا تاریخ میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے اور ’رگ وید‘ میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے، جو اس کی ثقافتی اور تاریخی اہمیت کی عکاسی کرتا ہے۔
دریائے سندھ، جو اپنے وافر آبی وسائل کے ساتھ لاکھوں لوگوں کا پیٹ پالنے کے لیے جانا جاتا ہے، اب بے پناہ دولت کے ذریعہ کے طور پر پہچانا جا رہا ہے۔
میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ دریا سندھ میں 600 ارب پاکستانی روپے مالیت کے خزانے موجود ہیں جو یہ روزانہ کی بنیاد پر پاکستان جمع کرتا ہے۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب، خاص طور پر ضلع اٹک میں دریا سے نکالے گئے سونے اور دیگر قیمتی معدنیات کی بڑی مقدار اس قابل ذکر دعوے کا ثبوت فراہم کرتی ہے۔
پاکستانی میڈیا رپورٹس کے مطابق دریائے سندھ میں پایا جانے والا سونا پاکستان کے شمالی پہاڑی علاقوں سے تیز رفتار پانی کے ذریعے بہہ کر یہاں پہنچتا ہے، جہاں یہ دریا کی تہہ میں جمع ہوتا رہتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دریائے سندھ میں غیر قانونی طور پر کان کنی کے پیش نظر حکومت پاکستان نے دفعہ 144 نافذ کر دی ہے جس کے تحت سونا نکالنے پر پابندی ہے۔ صوبہ پنجاب کے محکمہ داخلہ نے کہا ہے کہ پلیسر گولڈ جیسی قیمتی معدنیات ملکی خزانے کو بہت فائدہ پہنچا سکتی ہیں۔
رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ سردیوں کے مہینوں میں، جب دریائے سندھ میں پانی کی سطح گر جاتی ہے، مقامی لوگ غیر قانونی طور پر دریا کے کنارے سے سونے کے ذرات جمع کرتے ہیں۔ بھاری مشینری کا استعمال اب اس سرگرمی میں ایک عام عمل بن گیا ہے۔
پاکستان کی خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کی ایک سروے رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ہمالیائی خطے سے سونا نیچے بہہ کر آ رہا ہے اور پشاور کے آس پاس کے علاقوں میں جمع ہو رہا ہے۔
خیال رہے کہ ماہرین کا ماننا ہے کہ 6 سے 10 کروڑ سال قبل 2 ٹیکٹونک پلیٹوں کے درمیان ٹکراؤ کے بعد ہمالیہ بن گیا تھا جس نے دریائے سندھ کو جنم دیا تھا۔ دریائے سندھ کے آس پاس کا علاقہ ہزاروں سال پہلے وادی سندھ کی تہذیب کا مرکز بن گیا تھا۔
صدیوں سے، یہ دریا ہمالیہ کے پہاڑوں سے سونا بہا کر لے کر جاتا رہا ہے، پانی کے بہاؤ کی وجہ سے دریا کے کناروں پر سونے کے ذرات جمع ہو رہے ہیں، جسے پلیسر ڈپازٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
پاکستان کے ایک روزنامہ کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ دریائے سندھ کے ذریعے ہمالیہ سے آنے والا سونا 32.6 میٹرک ٹن تک ہو سکتا ہے۔ پنجاب کے وزیر کان کنی ابراہیم حسن مراد نے انکشاف کیا کہ 600 ارب پاکستانی روپے مالیت کا یہ سونا اٹک کے 32 کلومیٹر کے علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔