بلوچستان حکومت کی جانب سے سرکاری ملازمین کی پنشن پالیسی اصلاحات کو مسترد کرتے ہے، ایپکا
کوئٹہ(قدرت روزنامہ)آل پاکستان کلرکس ایسوسی ایشن بلوچستان کے صوبائی صدر حاجی علی اصغر بنگلزئی جنرل سیکرٹری ملک امیر زادہ علیزئی سینیئر نائب صدر اول سکندر علی لہڑی سینیئر نائب صدر دوئم ثنا اللہ جام ، سینئر نائب صدر سوئم اورنگ زیب نائب صدر اول ملک صحبت خان نائب صدر دوئم نقیب اللہ کاکڑ نائب صدر سوئم حاجی محمد کریم ایڈیشنل جنرل سیکرٹری برکت علی سامت ڈپٹی جنرل سیکرٹری بہار شاہ بلوچ جوائنٹ سیکرٹری حسین بخش فنانس سیکرٹری جعفر خان جدون پریس سیکرٹری ظہور بلوچ اور آفس سیکرٹری عالم خان سلیمان خیل نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں کہاکہ حکمران ملازمین کی تنخواوں پنشن و مراعات کے حوالے سے منافقانہ طرز عمل ترک کردے ۔بلوچستان حکومت کی جانب سے سرکاری ملازمین کی پنشن پالیسی اصلاحات کو مسترد کرتے ہے۔آئی ایم ایف کی پالیسیاں صرف ملازمین کی تنخواوں کی کٹوتی یا پنشن طریقہ کار میں تبدیلی کی حد تک ہر گز نہیں ایک وزیر کی تنخواہ ایک لاکھ سے بڑھا کر 9 لاکھ کردی جاتی ہے۔مراعات کے نام پر لگژری گاڑیاں اور رہنے کیلئے لاکھوں روپے کرایہ کے مد میں وصول کرتے ہے ۔وہاں نہ آئی ایم ایف کا خیال آتا ہے اور نا ہی ملکی کمزور معیشت کی ۔ وفاقی و صوبائی حکومت بلوچستان کے حوالے سے جو ظالمانہ پالیسیاں ترتیب دی ہے اس سے ملک خصوصا بلوچستان میں روزگار اور امن و امان پر بری اثر چھوڑے گی ۔ بلوچستان میں ترقیاتی اسکیمات لوگوں کو صحت وتعلیم کے حوالے سے سہولیات سمیت سرکاری و نجی روزگار سے محروم رکھا جارہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں جو حکومت عوام پر مسلط کی گء ہے اس سے کسی بھی خیر کی توقع نہیں گزشتہ ایک سال کے دوران سرکاری اداروں میں بھرتیوں کیلئے کروڑوں روپے کے اشتہارات جاری کی گئی اشتہارات جاری کرنے کے بعد ان کی تصحیح کے حوالے سے پھر اشہارات جاری ہوئے جب ہزاروں تعلیم یافتہ نوجوانوں نے ان آسامیوں کیلئے درخواستیں جمع کیئے تو بعد میں اکثر آسامیوں پر ہونے والے ٹیسٹ و انٹرویوز کو کینسل کرنے کیلئے اشتہارات جاری ہوئے ۔ ایسے میں صاف واضح ہے کہ بلوچستان حکومت ریموٹ کنٹرول کے تحت چلائی جارہی ہے اور ہر وہ تجربہ یہاں کیا جارہا ہے جو دشمن ملک اپنے مخالف ملک کے خلاف بھی نہیں کرتا ۔ انہوں نے کہا کہ پالیسی ساز اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرے ملک ایسے بھونڈے مذاق یا نمونوں کی حکمرانی سے نہیں چلائے جا سکتے ۔ جب ملازمین نے احتجاج کا راستہ اپنایا تو پورا سسٹم ہی جام کرکے رکھ دینگے ۔ اگر ملازمین کے بچوں کے روزی روٹی چھیننے کی کوشش ہوگی تو شیشے کے محل میں رہنے والے اشرافیہ کو بھی چھین سے زندگی گزارنے نہیں دینگے ۔ انہوں نے کہا کہ آج تک بلوچستان اسمبلی میں کبھی بھی یہ نہیں دیکھا کہ ملازمین کی تنخواہوں مراعات کے حوالے سے آئین سازی کی گئی ہو مگر اس کے برعکس ہر دو روز بعد ملازمین کے خلاف ایک پالیسی لاگو کیا جاتا ہے ۔برداشت بھی ایک حد ہوتی ہے مزید ظلم سہنے کی بجائے اب حقوق حاصل کرنے کیلئے ملازمین آخری حربہ استعمال کرینگے ۔ جس کو روکنا کٹ پتلی حکومت کے بس کی بات نہیں ۔انہوں نے کہا کہ جب 2021 میں مرکزی حکومت نے ملازمین کے احتجاج کی بدولت مجبور ہوکر وفاقی ملازمین کی تنخواہوں میں 25فیصد ڈسپیرٹی الانس دیا تو اس وقت حکومت بلوچستان نے کیوں وفاقی حکومت کی تقلید نہیں کی اور بلوچستان کے تمام ملازمین نے گرینڈ الائنس کے پلیٹ فارم سے 12 دن تک سیکریٹریٹ چوک پہ دن رات دھرنا دیا جس کی وجہ سے بلوچستان حکومت نے بحالت مجبوری 25 فیصد کی بجائے 15 فیصد ڈسپیرٹی الانس دیا جب کہ آج تک 10 فیصد ڈسپیرٹی الانس باقی ماندہ ھے،جو کہ اس بات کی غمازی کرتی ہے۔ کہ حکومت اپنی مفادات کی تکمیل کیلئے ہر پالیسی پر فوری عملدرآمد اور ملازمین کے مفادات کے وقت ملازم کش پالیسیوں کا سہارا لیتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان حکومت اگر پنشن پالیسی اصلاحات کو واپس نہیں لیا تو بلوچستان کے ملازمین سخت سے سخت احتجاج کیلئے تیار ہے