حلف لینے سے قبل جاری کی گئی کرپٹو کرنسی سے ٹرمپ کی دولت میں کتنے ارب ڈالرز کا اضافہ ہوا؟
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ آج دوسری مرتبہ صدارت کا حلف لے رہے ہیں مگر حلف برداری سے 2 روز پہلے لانچ کیے گئے ان کے کرپٹو کرنسی ٹوکنز نے ان کی دولت میں بے تحاشہ اضافہ کردیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعے کی رات $TRUMP کے نام سے میم کوائن کرپٹو کرنسی کے اجرا کا اعلان کیا تھا جس کے بعد جلد ہی اس کی مارکیٹ کیپیٹلائزیشن 12 ارب ڈالرز تک پہنچ گئی ہے جب کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں اس کی ٹریڈنگ کا حجم 40 ارب ڈالرز سے زیادہ رہا۔
اس کرپٹو کرنسی کےایک ٹوکن کی قیمت جمعے کے روز 10 ڈالرز تھی مگر اتوار کی صبح تک دیکھتے ہی دیکھتے اس کی قیمت 70 ڈالرز تک پہنچ گئی۔
لانچنگ کے 2 دن بعد $TRUMP دنیا کی 19ویں قیمتی ترین کرپٹوکرنسی بن گئی ہے اور اب تک ٹرمپ کی کمپنی کی طرف سے اس کے 2 ملین ٹوکن جاری کردیے گئے ہیں۔
ٹرمپ کے ساتھ ساتھ ان کی اہلیہ میلانیا ٹرمپ نے بھی اتوار کو اپنے نام سے کرپٹوکرنسی جاری کرنے کا اعلان کیا اور اب تک اس میں 1.7 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری ہوچکی ہے۔
اس کرپٹوکرنسی کے اجرا سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ کی دولت 6.7 ارب ڈالرز تھی مگر راتوں رات اس ’میم کوائن‘ کی وجہ سے ان کی دولت میں 12 ارب ڈالرز کا اضافہ ہوا ہے۔ دراصل یہ وہ سرمایہ کاری ہے جو کرپٹو انوسٹرز کی جانب سے ان کے اس میم کوائن میں کی گئی ہے۔
یوں $TRUMP لانچ کرنے کےبعد ڈونلڈ ٹرمپ دنیا کے امیر ترین لوگوں کی فہرست میں شامل ہوگئے ہیں۔
راتوں رات دولت میں یہ اضافہ اپنی جگہ مگر اس کاروباری قدم پر ڈونلڈ ٹرمپ کو شدید تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق نومنتخب امریکی صدرنے اپنی سرکاری حیثیت کا کرپٹو کرنسی کی تشہیر کرکے ذاتی فائدہ حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ وہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا ایک امریکی صدر کا اپنے عہدے کی وجہ سے ملنے والی اہمیت اور شہرت کو کاروباری فائدے کے لیے استعمال کرنا اخلاقی اور قانونی طور پردرست ہے یا نہیں۔
دوسری طرف کرپٹوکرنسی کے ماہرین میں بھی بحث چھڑ گئی ہے کہ ٹرمپ نے حلف برداری سے قبل میم کوائن جاری کرنے سے اس میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری تو ہوئی ہے مگر کیا اس کرپٹو کی قیمت آنے والے وقت میں بھی مستحکم رہے گی۔ انہیں خدشہ ہے کہ اس قسم کے مصنوعی طریقے سے وقتی پر توجہ حاصل کرنے والی کرپٹو کرنسی کی قیمت جلد ہی گرسکتی ہے جس سے لوگوں کی اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری ڈوبنے کا خطرہ ہے۔