برطانوی میڈیا گروپ نے شہزادہ ہیری سے معافی کیوں مانگی؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)برطانوی میڈیا ٹائیکون روپرٹ مرڈوک کے نیوز پیپر گروپ نے پرائیویسی پامال کرنے پر برطانیہ کے بادشاہ چارلس کے چھوٹے صاحبزادے پرنس ہیری سے معافی مانگتے ہوئے ہرجانہ ادا کرنے کا اعلان کردیا۔
نجي نیوزپیپرز کے وکیل ڈیوڈ شیربورن نے بتایا کہ ڈیوک آف سسیکس سے 1996 اور 2011 کے درمیان ان کی نجی زندگی میں دی سن کی سنگین مداخلت کے لیے مکمل اور واضح معافی مانگی۔ مذکورہ مداخلت میں دی سن کے لیے کام کرنے والے نجی تفتیش کاروں کی طرف سے کی گئی غیر قانونی بھی شامل ہیں۔
یہ پہلا موقع ہے جب نیوز پیپرز گروپ نے اپنے اخبار دی سن میں کسی غلط خبر کا اعتراف کیا ہے۔ یہ ایک اخبار ایک وقت میں اپنے صفحہ 3 (پیچ تھری) پر خواتین کی غیرمناسب تصاویر چھاپنے کے لیے جانا جاتا تھا۔
وکیل کے بیان میں پرنس ہیری کو ہدف بنانے کے لیے فون ہیکنگ، نگرانی اور صحافیوں اور نجی تفتیش کاروں کے ذریعے نجی معلومات کے غلط استعمال کا اعتراف کیا گیا ہے۔ شہزادہ ہیری کی جانب سے دائر کردہ مقدمے کی سماعت سے قبل گروپ نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی تھی۔ تاہم اب گروپ نے ہیری کی والدہ آنجہانی شہزادی ڈیانا کی زندگی میں دخل اندازی کو بھی تسلیم کرلیا ہے۔
تصفیہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم ڈیوک کو ہونے والی تکلیف اور رشتوں، دوستی اور خاندان کو پہنچنے والے نقصان کے لیے تسلیم کرتے ہیں اور معذرت خواہ ہیں اور ہم نے انہیں خاطر خواہ ہرجانہ ادا کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
لندن کی ہائیکورٹ میں یہ اعلان اس وقت سامنے آیا جب دی سن اور نیوز آف دی ورلڈ کے پبلشرز کے خلاف غیر قانونی طور پر جاسوسی کرنے پر ڈیوک آف سسیکس پرنس ہیری کا مقدمہ شروع ہونے والا تھا۔
گروپ آف نیوزپیپرز پر فون ہیک کیے جانے اور تفتیش کاروں کی زندگیوں میں غیر قانونی مداخلت کے الزامات پر مقدمہ کرنے والے 13 ہزار دعویداروں میں سے اب صرف کنگ چارلس III کے چھوٹے بیٹے 40 سالہ ہیری اور ایک اور شخص باقی رہ گئے تھے۔ دیگر دعویداروں نے نیوز گروپ سے آؤٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ کرلی تھی۔
ان تمام معاملات میں جو پبلشر کے خلاف لائے گئے ہیں جب سے ایک بڑے پیمانے پر فون ہیکنگ اسکینڈل نے مرڈوک کو سنہ 2011 میں نیوز آف دی ورلڈ کو بند کرنے پر مجبور کردیا تھا۔ اس وقت پرنس ہیری کا مقدمہ مقدمے کی سماعت کے نزدیک پہنچ گیا تھا۔
یاد رہے کہ مرڈوک نے نیوز آف دی ورلڈ کو اس وقت بند کر دیا جب گارڈین نے رپورٹ کیا کہ ٹیبلوئڈ کے رپورٹروں نے 2002 میں قتل ہونے والی 13 سالہ اسکول کی طالبہ ملی ڈاؤلر کا فون ہیک کر لیا تھا جب کہ پولیس اسے تلاش کر رہی تھی۔
پرنس ہیری کا کیس منگل کی صبح شروع ہونے والا تھا۔ یہ مقدمہ ان 3 مقدموں میں سے ایک تھا جو ہیری نے برطانوی ٹیبلوائڈز پر دائر کیا تھا جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ گروپ نے خبریں دینے کے لیے فون کے پیغامات کو سنا اور نجی تفتیش کاروں کو غیر قانونی طور پر استعمال کیا جس سے مدعی کی پرائیویسی (رازداری) کی خلاف ورزی ہوئی۔
ڈیلی مرر کے پبلشر کے خلاف اس کا مقدمہ اس وقت فتح پر ختم ہوا جب جج نے فیصلہ دیا کہ فون ہیکنگ اخبار اور اس کی بہن اشاعتوں میں “بڑے پیمانے پر اور عادت” تھی۔
یاد رہے کہ سنہ2023 میں اس مقدمے کی سماعت کے دوران ہیری 19 ویں صدی کے اواخر کے بعد سے عدالت میں گواہی دینے والے شاہی خاندان کے پہلے سینیئر رکن بن گئے جنہوں نے شاہی خاندان کی اس خواہش کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا کہ خاندانی مسائل کو پبلک میں اس طرح اجاگر نہ کیا جائے۔
پریس کے ساتھ اس کا جھگڑا اس کی جوانی سے شروع ہوا جب ٹیبلوئڈز نے ان کے زخمی ہونے سے لے کر ان کی گرل فرینڈز کے منشیات کے استعمال تک ہر چیز کی رپورٹنگ کی۔
پرنس ہیری اپنی والدہ شہزادی ڈیانا کی موت کا ذمہ دار بھی میڈیا کو ٹھہراتے ہیں، جو 1997 میں پیرس میں پاپارازیوں (ٹیبلوئیڈز کے فوٹوگرافرز) کی جانب سے پیچھا کیے جانے کے موقعے پر ایک کار حادثے میں وفات پا گئی تھیں۔ پرنس ہیری گروپ پر اپنی اہلیہ و اداکار میگھن مارکل پر مسلسل حملوں کے الزام بھی لگاتے رہے ہیں جس کی وجہ سے اس جوڑے کو شاہی زندگی چھوڑ کر سنہ 2020 میں امریکا منتقل ہوجانا پڑا۔ مذکورہ معاملے کے باعث پرنس ہیری اور ان کی اہلیہ کے شاہی خاندان کے ساتھ تعلقات بھی شدید متاثر ہوئے تھے۔
اس موقعے پر پرنس ہیری نے کہا تھا کہ میں یہ اپنی وجوہات کی بنا پر کر رہا ہوں، کاش میرا خاندان بھی اس کے ساتھ شامل ہوتا۔
پرنس ہیری نے عدالتی کاغذات میں انکشاف کیا تھا کہ ان کے والد نے اس کے مقدمہ کی مخالفت کی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ ان کے بڑے بھائی (پرنس آف ویلز) اور تخت کے وارث بھائی ولیم نے نیوز گروپ کے خلاف ایک نجی شکایت کا تصفیہ کیا جس کے جرمانے کی مالیت 10 لاکھ پاؤنڈ تھی۔
اب دیکھنا ہے کہ نیوز گروپ کے ڈیلی میل کے ناشر کے خلاف پرنس ہیری کے تیسرے کیس کا کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ اس مقدمے کی سماعت اگلے سال ہونے والی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *