مقبوضہ کشمیر: پراسرار بیماری نے موت کا بازار گرم کردیا، طبی ماہرین ششدر
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)مقبوضہ کشمیر کے سرحدی ضلعے راجوری میں ایک پراسرار بیماری نے بچوں سمیت 17 افراد کی جان لے لی جبکہ 300 سے زائد مریض قرنطینہ کردیے گئے۔
وائس آف امریکا کی ایک رپورٹ کے مطابق راجوری کے علاقے بڈھال میں پراسرار بیماری کے باعث ہلاکتوں کی تعداد 17 ہو گئی ہے جن میں 3 سے 15 برس کے 13 بچے بھی شامل ہیں۔
نہ تو اس پراسرار بیماری کا فی الحال کوئی نام معلوم ہوسکا ہے اور نہ ہی اب تک اس کے پھیلنے کی وجوہات سامنے آسکی ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ بیماری سے متاثرہ کئی افراد اب بھی راجوری، جموں اور چندی گڑھ کے اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ جان کی بازی ہارنے والوں اور بیمار افراد کے رشتے داروں اور ان کے رابطے میں آنے والے دیگر افراد سمیت 300 سے زائد لوگوں کو بڈھال سے55 کلو میٹر دور ضلع صدر مقام راجوری میں قائم کیے گیے قرنطینہ مراکز پر منتقل کردیا گیا ہے۔
بڈھال اور قرب و جوار آلودہ زون قرار
بڈھال اور اس کے قر ب و جوارکو ’آلودہ زون‘ قرار دیا گیا ہے۔ متعدی بیماری کے مزید پھیلاؤ کو روکنے کے لیے انتظامیہ نے متاثرہ خاندانوں کے گھروں کو سیل کردیا ہے اور مرنے والوں کے گھروں میں داخلے پر مکمل پابندی لگادی ہے۔ قرنطینہ مراکز پر ہلاک شدگان اور بیمار افراد کے ساتھ رابطے میں رہنے والے خاندانوں کی مسلسل نگرانی کی جارہی ہے۔
راجوری کے ڈپٹی کمشنر ابھیشیک شرما کا کہنا ہے کہ متعدی بیماری کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بڈھال کو 3 الگ الگ ’کنٹینمنٹ زونز‘ میں تقسیم کردیا گیا ہے اور لوگوں کی نقل و حرکت کو محدود کرنے کے لیے بھارت میں سنہ 2023 سے نافذ بھارتیہ ناگرک سرکشا سنہتا کی دفعہ 163 کے تحت علاقے میں نگرانی کے جامع اقدامات کیے گئے ہیں۔
ابھیشیک شرما نے بتایا کہ اس قانون کے تحت انتظامیہ کو کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لیے خصوصی اختیارات حاصل ہیں۔
تالاب کے آلودہ پانی کا موت کا سبب بننا خارج از امکان
اس سے پہلے بڈھال کے ایک تالاب کے پانی کی جانچ کے دوران اس میں کیڑے مار دوا پائی گئی تھی جس کے بعد اس تالاب کو سیل کردیا گیا تھا لیکن طبی ماہرین نے اس کی وجہ سے اموات کے امکان کو خارج از امکان قرار دیا ہے۔
نامعلوم بیماری کی علامات
اگرچہ طبی ماہرین کی خصوصی ٹیمیں گزشتہ 2 ہفتوں سےبڈھال میں موجود ہیں اور جموں و کشمیر پولیس کی ایک خصوصی تفتیشی ٹیم بھی کام پر لگی ہوئی ہے سرکاری طور پر اس بیماری کا نام معلوم ہے اور نہ ابھی تک یہ پتا لگایا جاسکا ہے کہ اس کے پھیلنے کی وجوہات کیا ہیں۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے اس بیماری میں مبتلا ہونے والے افراد میں تیز بخار، اسہال اور پھر بے ہوشی کی کیفیات پیدا ہوئیں۔
طبی ماہرین کے مطابق جتنے بھی افراد اس بیماری میں مبتلا ہوکر مرنے والے تمام افراد کے دماغ اور اعصابی نظام بری طرح متاثر ہوئے تھے۔
اموات کا سلسلہ کب سے شروع ہوا؟
اموات کا یہ سلسلہ 7 دسمبر کو فضل حسین نامی ایک شہری کے گھر سے شروع ہوا تھا۔ پہلے ان کے 4 بچوں کی اموات ہوئیں اور پھر وہ خود بھی جان کی بازی ہار گئے۔
ایک اور شہری محمد اسلم اب تک اپنے 6 بچوں اور ماموں اور ممانی کو کھوچکے ہیں۔ اسلم کے والدین نہیں ہیں اور انہیں ان کے بے اولاد ماموں ممانی نے گود لیا تھا۔ علاوہ ازیں اسلم کے پڑوسی محمد رفیق کی بیوی اور 3 بچے 12 دسمبر کو اس بیماری کی نذر ہوگئے تھے۔
جموں کے گورنمنٹ میڈیکل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر اشتوش گپتا نے میڈیا کو بتایا کہ وہاں کے اسپتال میں داخل کرائی گئیں 3 لڑکیوں میں سے ایک کی حالت انتہائی تشویشناک ہے۔
ایک اور مریض اعجاز احمد کو چندی گڑھ کے پوسٹ گریجویٹ انسٹی چیوٹ آف میڈیکل ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (پی جی آئی) منتقل کردیا گیا ہے جہاں اُن کی حالت میں بہتری کی اطلاع ملی ہے۔
پراسرار بیماری کے پھوٹ پڑنے اور اس کی لپیٹ میں آنےوالوں کی تعداد میں مسلسل اضافے کے نتیجے میں اس پورے علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔
علاقہ مکین نقل مکانی پر مجبور
راجوری اور ہمسایہ ضلع پونچھ کی سرحدیں آزاد کشمیر سے ملتی ہیں۔ موجودہ صورتحال ک باعث وہاں کے لوگ خاصے پریشان ہیں۔
راجوری کے ایک شہری محمد عمر بڈھانہ نے وائس آف امریکا کو بتایا کہ بڈھال اور اس کے ملحقہ دیہات کے کئی کنبے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خود ان کے گھر میں ان کے پھوپی زاد بھائی اور ان کے بیوی بچے آکر ٹھہرے ہوئے ہیں حالاں کہ ان کا گاؤں بڈھال سے کوسوں دور ہے اور وہ انتہائی خوف زدہ ہیں۔
ہیلتھ ایمرجنسی کے نفاذ کا مطالبہ
عوام کی ایک بڑی تعداد نے جمعرات کو لوگوں راجوری کے گجر منڈی علاقے میں جمع ہوکر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ وہ پراسرار بیماری میں مبتلا ہونے والے سبھی افراد کو راجوری اور جموں کے اسپتالوں سے چندی گڑھ منتقلی کا مطالبہ کررہے تھے۔
دریں اثنا حکمران نیشنل کانفرنس کے ایک مقامی لیڈر اور ممبر جموں و کشمیر اسمبلی جاوید اقبال چودھری نے اس متعدی بیماری کے پھیلاؤ کو روکنےاور اس سے متاثرہ افراد کوبچانے کے لیےعلاقے میں میڈیکل ایمرجنسی نافذ کرنےکا مطالبہ کیا ہے۔
عمر عبداللہ حکومت شدید تنقید کی زد میں
یہ معاملہ ایک سیاسی تنازع کی شکل بھی اختیار کرنے لگا ہے۔ حزب اختلاف کی بعض جماعتوں نے عمر عبد اللہ حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ اس بیماری سے وقت پر نمٹنے میں ناکام رہی اور نوبت 17 افراد کی ہلاکت تک پہنچی اور مزید کئی افراد اسپتالوں میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔
نئی دہلی میں بر سر اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کے مقامی رہنما طاہر چودھری کہتے ہیں کہ یہ پراسرار ہلاکتیں سب کے لیے تشویش کا باعث ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ عمر عبد اللہ حکومت کی بے حسی اور اس بحران جیسی صورتِ حال سے بروقت نمٹنے میں ناکامی کی بھی عکاسی کرتی ہیں۔
دوسری جانب وزیر اعلیٰ عمر عبد اللہ نے اس نکتہ چینی کو بلا جواز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کے سب ہی متعلقہ ادارے اس بیماری کی وجہ جاننے اور متاثرین کو موثر طبی امداد فراہم کرنے میں آغاز پر ہی سرگرم ہو گئے تھے۔
وزیر اعلیٰ نے 21 جنوری کو بڈھال کے دورے کے دوران ہلاک شدگان کے لواحقین سے مل کر ان کی ڈھارس بندھائی تھی اور انہیں حکومت کی طرف سے ہر ممکن امداد فراہم کرنے کا یقین دلایا تھا۔
جمعرات کو سرینگر میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اس پراسرار بیماری کی وجوہات جاننے کی کوششں تیز کردی گئی ہیں اور بہت جلد حکومت کو جواب مل جائے گا۔
دہلی کی طبی ٹیم کا متاثرہ علاقے کا دورہ
دریں اثنا بھارتی وزیر داخلہ امت شاہ کی ہدایت پر دہلی سے آئی ہوئی ایک ٹیم نے بھی بڈھال کا دورہ کیا ہے۔ اس ٹیم نے بڈھال سے کئی نمونے جمع کیے اور متاثرہ خاندانوں سے تفصیلات لیں۔
مویشیوں کا کیا ہوگا؟
اس دوران بڈھال سے راجوری میں قائم قرنطینہ مراکز پر منتقل کیے گیے خاندانوں کے پیچھے چھوڑے ہوئے بھیڑ بکریوں اور مویشیوں کی دیکھ بھال کا کام محکمہ حیوانات و بھیڑ پالن کے سپرد کر دیا گیا ہے۔