سیاسی مذاکرات: پی ٹی آئی کے کچھ مطالبات کا جواب ہاں، کچھ کا ناں میں ہوگا، رانا ثنااللہ
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ حکومت مذاکرات پر یقین رکھتی ہے، پی ٹی آئی کے چارٹر آف ڈیمانڈ کے کچھ نکات کا جواب ہاں میں اور کچھ کا جواب ناں میں ہوگا، میری سوچ ہے کہ پی ٹی آئی جوڈیشل کمیشن کی سربراہی کے لیے جن 3 لوگوں کی بات کررہی ہے ان میں سے کوئی ایک بھی کمیشن کے قریب تک نہیں آئے گا۔
ہفتہ کے روز ایک نجی ٹی وی انٹرویو میں وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے’پیکا آرڈیننس ترمیمی بل‘ سے متعلق صحافیوں کے احتجاج پر کہا کہ حکومت صحافیوں کے تحفظات اور خدشات دور کرنے کے لیے تیار ہے، تاہم انہوں نے واسطہ دے کر کہا کہ ’خدا را‘ پہلے سوشل میڈیا کے اس عذاب جس نے عام آدمی کو متاثر کیا ہے، سے جان چھڑانے دیں۔
انہوں نے کہا کہ صحافیوں کا احتجاج سرآنکھوں پر ہے لیکن جب سے سوشل میڈیا اور ’آرٹیفیشل اینٹلی جنس (اے آئی ) کا ’تڑکا‘ لگا ہے کسی کی عزت محفوظ نہیں رہی ہے۔
اس میں کسی کی بیٹی، بہن یا ماں کی عزت محفوظ نہیں رہی، جس کی جو مرضی ہے وہ کسی کی ماں، بہن یا بیٹی کو جس طرح چاہے دکھا دیتا ہے، اس جہالت کے بعد اگران لوگوں کو سخت ہاتھ نہ ڈالا گیا تو کسی کی بھی عزت محفوظ نہیں رہے گی نہ ہی یہ سلسلہ رکنے والا ہے، اس کو روکنے کے لیے یہی قانون نافذ العمل ہو گا تو بات بنے گی۔
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ اس بل پر صحافیوں کے اعتراضات اور تحفظات پر وزیراعظم سے بات ہوئی ہے وہ اعلیٰ سطح پرکمیٹی تشکیل دے کر صحافیوں سے بات چیت کرنے اور تحفظات دور کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن خدا کے لیے اس عذاب سے جان چھوٹنے دیں۔
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ’اے آئی ‘ کے آنے سے رہی سہی کسر بھی نکل گئی ہے، سوشل میڈیا کو قابو کرنے کے لیے سائبر کرائم کا کوئی مؤثر ادارہ نہیں ہے اس کے لیے ایف آئی اے کے پاس جانا پڑتا ہے جہاں اسٹاف کی کمی کے باعث فوری انصاف ملنا ممکن نہیں ہوتا۔ حکومت صحافیوں کے تحفظات اورخدشات ہر حال میں دور کرنے کے لیے تیارہے۔
رانا ثنا اللہ نے صحافیوں سے درخواست کی کہ وہ اس قانون کو نافذ العمل ہونے دیں کیونکہ یہ عام آدمی کے تحفظ کے لیے ہے، اس کے نافذالعمل ہونے اور خصوصاً ادارے قائم کرنے میں ابھی بہت وقت لگے گا، اس دوران صحافیوں کے ساتھ مل کران کے تحفظات اور خدشات کو دورکر لیا جائے گا۔
وزیراعظم کےمشیر نے کہا کہ ابھی تک اس بل کی کسی ایک شق پر بھی کسی کے اعتراضات نہیں آئے ہیں، تاہم یہ اعتراض ضرورآیا ہے کہ اس کا استعمال غلط ہو سکتا ہے۔
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان کی جانب سے اور اپنی جانب سے میڈیا ہاؤسز کو یقین دہانی کراتا ہوں کہ اس آرڈیننس کو قطعاً صحافیوں، صحافتی تنظیموں یا صحافتی اداروں کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا۔
ایک سوال کے جواب میں رانا ثنا اللہ نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے کسی نے کوئی بے وفائی نہیں کی، مذاکرات کا مسلمہ طریقہ یہی ہے کہ ایک فریق مطالبہ کرتا ہے اور دوسرا اس کا جائزہ لیتا ہے، پھر کوئی فیصلہ ہوتا ہے، پی ٹی آئی سے 7 ورکنگ روز کا وقت مانگا لیکن پی ٹی آئی نے کہا کہ ہمیں آئندہ مذاکرات میں بیٹھنے کی اجازت ہی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم پی ٹی آئی کے مطالبات پراپنے جوابات تیار کر چکے ہیں، جس طرح انہوں نے چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا ہے اسی طرح ہم بھی انہیں ان ڈیمانڈز پرجوابات دیں گے۔
مذاکراتی کمیٹی کے ممبر حامد رضا کے مدرسے پر چھاپے سے متعلق سوال کے جواب میں رانا ثنا اللہ نے کہا کہ انہوں نے اس کی شکایت اسپیکر اسمبلی سے نہیں کی، مذاکرات کے حوالے سے یہ ایک بہانہ بنا رہے ہیں۔
رانا ثنا اللہ نے انکشاف کیا کہ پی ٹی آئی کے چارٹرآف ڈیمانڈ کے کچھ نکات پر جواب ہاں میں بھی ہو گا اور نہ میں بھی ہوگا، جہاں تک جوڈیشل کمیشن کے قیام کا مطالبہ ہے تو اس میں دیکھنا ہے کہ ٹرمزآف ریفرنس کیا ہے؟
پی ٹی آئی والے کہتے ہیں کہ فلاں شخص کو جوڈیشل کمیشن کا سربراہ بنایا جائے، آیا جس کی وہ کہہ رہے ہیں وہ اس کمیشن کا سربراہ بننے کے لیے تیار ہوگا یہ ساری چیزیں دیکھنے کے بعد ہی فیصلہ کیا جاسکتا ہے، تاہم میری ذاتی سوچ ہے کہ سپریم کورٹ سے کوئی بھی جوڈیشل کمیشن کے قریب تک نہیں آئے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے پی ٹی آئی کو کسی بھی چیز سے نہیں روکا، نہ احتجاج سے روکا نہ سول نافرمانی کی تحریک سے روکا ہے، یہ جمہوریت کا حصہ ہے اور جمہوریت میں مسائل کا واحد راستہ مذاکرات ہوتے ہیں اور ہم میز پر ہی مسائل حل کرنے کے خواہاں ہیں۔