ایف بی آر کے کن افسران کو کون سی گاڑیاں دی جا رہی ہیں؟
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے 6 ارب روپے سے زیادہ مالیت کی 1010 نئی گاڑیاں خریدنے کے لیے لکھا گیا خط سامنے آیا تو سینیٹ کمیٹی، میڈیا اور سیاست دان تنقید کے ساتھ سامنے آ گئے، سینیٹ کمیٹی نے ایف بی آر کو گاڑیوں کی خریداری روکنے کی ہدایت کی جبکہ گزشتہ روز چیئرمین ایف بی آر نے کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نوجوان افسران کے لیے گاڑیاں ضرور خریدیں گے کیونکہ یہ آپریشن کے لیے ضروری ہیں۔
ایف بی آر کے کون سے افسران کے لیے ایک ہزار سے زائد گاڑیاں خریدی جا رہی ہیں؟
سینیٹ کمیٹی نے ایف بی آر کو گاڑیوں کی خریداری روکتے ہوئے وضاحت طلب کی تھی جس پر اب ایف بی آر کی جانب سے سینیٹ کمیٹی کو لکھا گیا خط سامنے آیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کون سے افسران کے لیے گاڑیاں خریدی جا رہی ہیں اور گاڑیاں کیوں ضروری ہیں۔
ایف بی آر کی جانب سے واضح کیا گیا ہے کہ نئی گاڑیاں صرف فیلڈ دفاتر میں تعینات عملے کو دی جائیں گی، صرف گریڈ 17 اور 18 کے افسران یہ گاڑیاں استعمال کر سکیں گے، جبکہ گریڈ 19 یا اس سے سینئر افسر کو ایک بھی گاڑی نہیں دی جائے گی، جبکہ یہ گاڑیاں دفاتر کی ملکیت ہوں گی افسران کو ذاتی استعمال کے لیے نہیں دی جائیں گی، گاڑیوں کا غیر ضروری اور غلط استعمال روکنے کے لیے اس ک اندر دونوں اطراف ایف بی آر کے اسٹیکرز چسپاں کیے جائیں گے۔
سینیٹ کمیٹی کو لکھے گئے خط میں ایف بی آر کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ اس وقت 1300 سی سی کی گاڑیاں خریدنے کا پرچیز آرڈر دیا گیا ہے تمام ایک ہزار 10 گاڑیوں کو 3 مرحلوں میں خریدا جائے گا، جبکہ گاڑیوں کی خریداری کے لیے بیڈنگ پر اٹھائے گئے اعتراض پر کہا گیا ہے کہ قانون کہ تحت ایف بی آر کو اجازت ہے کہ وہ مقامی طور پر تیار کردہ گاڑیاں براہ راست کمپنی سے خرید سکے۔
ایف بی آر نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ رواں سال 1300 ارب روپے کا ٹیکس ہدف پورا کرنا ہے، گزشتہ سال ٹیکس ہدف میں 600 روپے کا شارٹ فال رہا ہے جس میں سے 350 ارب سیلز ٹیکس کا شارٹ فال رہا ہے، سیلز ٹیکس وصولیوں کے لیے افسران کو دفاتر سے باہر جانا ہو گا جس کے لیے سواری ضروری ہے۔
واضح رہے کہ ایف بی آر کی جانب گاڑیوں کی خریداری کے لیے لکھے گئے خط میں خط میں ابتدائی طور پر کہا گیا تھا کہ ایک ہزار 10 نئی گاڑیوں کی خریداری 3 مرحلوں میں ہوگی اور پوری رقم ایف بی آر ادا کرے گا۔ 500 گاڑیوں کی خریداری کے لیے 3 ارب روپے کی ایڈوانس ادائیگی کی جائے گی جسے پہلی کھیپ کی مکمل ادائیگی تصور کیا جائے گا۔ ایک ہزار 10 گاڑیوں کی فراہمی جنوری سے مئی 2025 کے درمیان ہوگی۔ پہلے مرحلے میں جنوری میں 75، فروری میں 200 اور مارچ میں 225 گاڑیاں فراہم کی جائیں گی۔ دوسرے مرحلے میں اپریل میں 250 گاڑیاں اور مارچ میں 260 گاڑیاں فراہم کی جائیں گی۔
سینیٹ کمیٹی نے ایف بی آر کو گاڑیوں کی خریداری روکنے کی ہدایت کی تھی اور چیئرمین کمیٹی نے کہا تھا ایف بی آر ایک ہزار سے زیادہ گاڑیاں کس لیے خرید رہا ہے جس پر وزارت خزانہ کے حکام کا کہنا تھا یہ گاڑیاں فیلڈ افسران کے لیے خریدی جا رہی ہیں۔ چیئرمین کمیٹی نے سوال کیا کہ کیا پہلے فیلڈ افسران ٹیکس لینے سائیکل پر جاتے تھے؟ ایف بی آر حکام نے کہا کہ افسران دفتر میں بیٹھے ہیں جس سے درست جانچ نہیں ہوتی، گاڑیوں میں باہر جائیں گے تو کام ہوگا۔
ایف بی آر حکام نے کمیٹی کو بتایا تھا کہ گاڑیوں کی خریداری کا آرڈر کرچکے ہیں۔ جس پر فیصل واوڈا نے کہا کہ بدمعاشی دیکھ لیں کہ اتنی جلدی میں خریداری کا آرڈر بھی کردیا گیا، ایف بی آر مخصوص کمپنیوں سے گاڑیاں خرید رہی ہے یہ بہت بڑا اسکینڈل ہے۔ فیصل واوڈا نے سوال اٹھایا کہ کیا ایف بی آر کا ٹیکس شارٹ فال پورا کرنے کے لیے گاڑیاں خریدی جا رہی ہیں، خریداری فی الحال روکی جائے پھر کمپٹیشن کے ذریعے خریداری کی بات کی جائے، اس خریداری کو روکا نہ گیا تو بہت بڑا کرپشن اسیکنڈل ہوگا۔
فیصل واوڈا نے سوال اٹھایا کہ کیا ایف بی آر کا ٹیکس شارٹ فال پورا کرنے کے لیے گاڑیاں خریدی جا رہی ہیں، خریداری فی الحال روکی جائے پھر کمپٹیشن کے ذریعے خریداری کی بات کی جائے، اس خریداری کو روکا نہ گیا تو بہت بڑا کرپشن اسیکنڈل ہوگا۔