بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال تشویشناک ہے، پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز

کوئٹہ(قدرت روزنامہ)پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں انکشاف ہو ا ہے کہ بلوچستان میں رواں سال جنوری کے دوران ایک بار پھر امن و امان کی صورتحال شدید خراب رہی، جہاں مختلف دہشت گردی کے واقعات میں متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔پانچ جنوری کو بلوچستان کے ضلع کیچ کے صدر مقام تربت میں ایک مسافر بس کو خودکش حملے کا نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں چار افراد ہلاک اور 36سے زائد زخمی ہوگئے۔ یہ حملہ صوبے میں جاری دہشت گردی کی تازہ لہر کی عکاسی کرتا ہے، جس سے عوام میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔نو جنوری کو خضدار کی تحصیل زہری ٹاون میں مسلح افراد نے لیویز تھانے پر حملہ کر کے قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد حملہ آوروں نے نادرا آفس، ایک نجی بینک اور موبائل ٹاور کو نذرِ آتش کر دیا۔ یہ حملہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے، کیونکہ حملہ آوروں نے بلا خوف و خطر کارروائی کی اور فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔واضح رہے کہ 2024میں بھی کالعدم تنظیم نے تربت، قلات، کوئٹہ، دکی، مستونگ، ہرنائی، لسبیلہ، بولان، گوادر، موسی خیل اور دیگر علاقوں میں دہشت گرد حملے کیے تھے۔ ان حملوں میں سیکیورٹی فورسز، سرکاری دفاتر، انفراسٹرکچر اور عام شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔محکمہ داخلہ بلوچستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، 2024 کے دوران صوبے بھر میں دہشت گردی کے 200ے زائد واقعات رونما ہوئے، جن میں 207 افراد مارے گئے۔صوبے میں بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات سے عوام میں عدم تحفظ اور خوف و ہراس کی فضا قائم ہے۔ حکومت اور سیکیورٹی ادارے دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائی کے بلند و بانگ دعوے تو کر رہے ہیں، مگر زمینی حقائق اس کے برعکس نظر آتے ہیں۔عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی نہیں کرتے تو بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال مزید خراب ہوسکتی ہے۔