گندم کی قیمت میں کمی کے باوجود ملک میں گندم بحران پیدا ہونے کا خدشہ کیوں؟

اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاکستان میں گندم کی قیمت میں خاصی کمی دیکھی گئی ہے، فی من گندم کی قیمت 3 ہزار 900 روپے سے 2 ہزار 800 روپے تک پہنچ گئی ہے، حکومت کی جانب سے گندم کی قیمتوں میں کمی کسانوں کے لیے بے حد پریشانی کا باعث ہے۔
جس کے بعد کسانوں کی جانب سے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ گندم کاشت نہیں کریں گے، جس سے مستقبل میں گندم کا بحران بھی جنم لے سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق قیمتوں میں کمی گندم کی پیداوار میں خاصی کمی کا باعث بن سکتا ہے، جس سے ملک میں پہلے سے موجود غذائی سلامتی کا معاملہ زیادہ سنگین ہوسکتا ہے۔
تونسہ شریف سے تعلق رکھنے والے کاشتکار حافظ محمد حسین نے، کسان بورڈ پنجاب کے صدر بھی رہ چکے ہیں، اس مرتبہ اپنی 40 ایکڑ اراضی پر گندم کاشت نہیں کی۔
حافظ محمد حسین کے مطابق گندم کی قیمت میں کمی کی وجہ سے کسانوں کو گزشتہ ایک برس میں شدید مالی نقصان ہوا ہے کیونکہ گندم کی کاشت کے لیے درکار تمام لوازمات انتہائی مہنگے ہو چکے ہیں، جس میں کھاد، بیج، اسپرے، ڈیزل، ٹریکٹر وغیرہ شامل ہے۔
حافظ محمد حسین کا کہنا تھا کہ جو اسپرے کی بوتل 300 روپے میں مل جاتی تھی، اب وہی اسپرے کی بوتل 1700 روپے تک پہنچ چکی ہے، جو 2 سال قبل یوریا کھاد 2000 روپے کی بوری تھی، جس کی آج قیمت 5500 روپے تک پہنچ چکی ہے۔
’اسی طرح ڈیزل 300 روپے پر جا چکا ہے اور جو گندم کی کاشت کے لیے درکار دیگر لوازمات کی قیمتیں 600 فیصد تک بڑھ گئی ہیں، کسان اپنی فصل پر جو پیسہ خرچ کرتا ہے، حکومت نے کسان کو اس کا پورا معاوضہ نہیں دیا، اور اب کی بار گندم کی قیمت میں مزید کمی کرتے ہوئے اسے معاشی طور پر تباہ کیا گیا ہے۔‘
سابق صدر کسان بورڈ پنجاب کے مطابق رواں برس کسانوں نے بہت کم گندم کاشت کی ہے یہی وجہ ہے کہ اس بار گندم کی پیداوار کا ہدف 65 فیصد سے بھی کم رہا ہے۔
’محکمہ زراعت اور محکمہ آبپاشی گندم کاشت کرنے میں بہت زیادہ ناکام ہوا ہے۔ کسان کو اب نہ صرف ان پر بلکہ حکومت پر بھی اعتماد نہیں رہا کہ وہ گندم، چنا،گنا یا کپاس کاشت کریں تو انہیں فائدہ ہوگا۔‘
حافظ محمد حسین کے مطابق انہی وجوہات کی بنا پر کسان کاشتکاری کے بجائے اب جانوروں کی پرورش یا پھر سبزیوں کی کاشت پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں، کیونکہ چاول، گنا، چنا کاشت کر نے کا ان کو فائدہ نہیں ہے، ان کو مناسب قیمت ہی نہیں ملتی۔
’12 ہزار روپے مالیت کی 100 کلو گندم کی بوری کی قیمت 6 ہزار روپے لگانا تو کسان کی تباہی ہے، زرعی ٹیوب ویل کا بجلی کا بل لاکھوں میں ہوتا ہے۔ کسان کے ساتھ تو زیادتی ہے، گندم کے ریٹ طے کرنے کی غرض سے حکومت کی تشکیل کردہ کمیٹیوں کو کیا معلوم کسان کن مشکلات سے گزر کر گندم کاشت کرتا ہے۔‘
حافظ محمد حسین کا موقف تھا کہ گندم کی قیمت میں کمی کے ساتھ 100 کلو کی بوری کم از کم 10 ہزار روپے ہونی چاہیے تھی کیونکہ اس وقت کسان کا مالی خسارہ پورا ہوگا۔
’جن کسانوں نے قرض لے کر گندم کاشت کی ہے، انہیں اس پر 25 فیصد مارک اپ دینا ہوتا ہے، تو ان کا کیا ہوگا، حکومت کی یہی پالیسی رہتی ہے تو اس صورتحال میں گندم کسان کاشت نہیں کریں گے اور ملک کو گندم کے بحران کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔‘
پنجاب فلور ملز ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین چوہدری افتخار احمد بھٹو کا کہنا تھا کہ 2023 میں حکومت نے کسانوں سے 3 ہزار 900 روپے فی من کے حساب سے گندم خرید کر 4 ہزار 700 روپے پر فروخت کی تھی، حکومت نے گندم کی خریداری بھی مہنگی کی اور فروخت اس سے بھی زیادہ مہنگی کی۔
’اس کے ساتھ حکومت نے 35 لاکھ ٹن گندم درآمد بھی کی تھی اور اب رواں برس حکومت نے وہی گندم جو 4 ہزار 700 روپے مالیت کی تھی، اس کا ریٹ 2800 روپے طے کر دیا، اب حکومت نے صارفین کو مد نظر رکھتے ہوئے ضرورت سے زیادہ گندم کی قیمت کو کم کر دیا ہے۔‘
چوہدری افتخار احمد بھٹو کے مطابق حکومت کا عوام کو ریلیف دینا اچھی بات ہے لیکن حکومت کو کسانوں سے گندم ان کے اخراجات کو مد نظر رکھتے ہوئے خریدنا چاہیے کیونکہ حکومت نے تو کسان کی گندم کا ریٹ بہت کم لگایا ہے۔
کسانوں کے مطابق ان کی فی من گندم کی قیمت 3 ہزار 900 روپے سے کم نہیں ہونی چاہیے لیکن حکومت نے 2 ہزار 800 روپے قیمت لگائی ہے، جس پر کسان بار بار کہہ رہے ہیں کہ اگر حکومت نے پالیسی تبدیل نہ کی تو وہ گندم کاشت نہیں کریں گے۔
چوہدری افتخار احمد بھٹو کے مطابق اس تمام صورتحال میں حکومت کو چاہیے کہ کسان کو اتنا نہ ڈرائیں کہ وہ گندم کاشت کرنا چھوڑ دیں۔ ’اپنی پالیسی پر نظر ثانی کریں کیونکہ آنے والے وقت میں گندم کی قلت پیدا ہو سکتی ہے۔‘
آٹے کی قیمت میں کتنی کمی ہوئی؟
العمران فلور ملز کے مالک محمد عمران نے وی نیوز کو بتایا کہ گندم کی قیمت میں کمی کے اثرات آٹے کی قیمت پر مرتب ہو چکے ہیں، 20 کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت 3200 روپے سے اب 1700 روپے تک ہوچکی ہے۔
’اگر گندم کی فی من قیمت میں 40 فیصد کمی ہوئی ہے، تو آٹے کی قیمت میں تقریبا 45 فیصد تک کمی آ چکی ہے، آٹے کی قیمت میں مزید کمی تو فی الحال ممکن نہیں ہے یا شاید تھوڑی بہت ہو بھی جائے لیکن اس صورتحال میں حکومت کو ایگرو اکانومی کو بھی دیکھنا ہے۔‘
محمد عمران کے مطابق حکومت کو دیکھنا چاہیے کہ کسان کی گندم کی پیداواری قیمت پوری ہو بھی رہی ہے یا نہیں، اسے مد نظر رکھنا بہت ضروری ہے، ورنہ گندم کا بحران پیدا ہوگا اور پھر گندم درآمد کرنا پڑے گی۔
’اگر مارکیٹ میں گندم کی آزادانہ نقل و حمل برقرار رہتی ہے تو گندم کے ریٹ مناسب ہی رہیں گے، حکومت کو چاہیے کہ کسانوں کے پیداواری لاگت کو بھی مد نظر رکھے۔‘