کچھ لوگوں کو شدید چوٹ لگنے کے باوجود درد کیوں محسوس نہیں ہوتا؟
![](https://dailyqudrat.pk/wp-content/uploads/2025/02/10-45.jpg)
لندن(قدرت روزنامہ) درد ایک ایسی حقیقت ہے جس کا سامنا ہم سب کو کبھی نہ کبھی ضرور ہوتا ہے، چاہے وہ معدے میں جلن ہو، گرم پانی سے جلنے کی تکلیف ہو، یا انگلی کٹنے کا تیز درد ہو لیکن بعض اوقات حیرت انگیز طور پر ہمارا دماغ خود ہی اس درد کو “بند “کر دیتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران مشہور معالج ہنری بیچر نے مشاہدہ کیا کہ کچھ زخمی فوجیوں کو شدید چوٹوں کے باوجود طاقتور درد کش ادویات کی ضرورت نہیں پڑی۔ کچھ کیسز میں تو وہ اپنے کسی عضو سے بھی محروم ہو چکے تھے، مگر پھر بھی انہیں شدید تکلیف محسوس نہیں ہوئی۔ یہ ایک غیر معمولی رجحان تھا، جہاں خوف، دباؤ اور جذبات نے دماغ میں موجود درد کے سگنلز کو دبا دیا۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق درد کا مقصد دراصل جسم کو نقصان پہنچانا نہیں بلکہ اسے نقصان سے بچانا ہے۔ عام طور پر ہم درد کو کسی چیز کے طور پر محسوس کرتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ ایک حس کی کیفیت ہے جو ہمارے دماغ میں پیدا ہوتی ہے۔ ہمارے جسم میں نوسیسپٹرز (nociceptors) نامی خاص نیورون ہوتے ہیں جو چوٹ یا نقصان دہ محرکات کا پتہ لگاتے ہیں۔ جیسے ہی یہ نیورون متحرک ہوتے ہیں وہ برقی سگنلز کے ذریعے معلومات کو ریڑھ کی ہڈی اور پھر دماغ تک پہنچاتے ہیں۔ جب یہ سگنلز دماغ کے سب سے اوپر والے حصے یعنی سیریبرل کورٹیکس میں پہنچتے ہیں، تب جا کر ہمیں درد کا احساس ہوتا ہے۔
اگر دماغ تک پہنچنے والے سگنلز کسی بھی طرح رک جائیں تو ہمیں درد محسوس نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر لوکل اینستھیزیا درد کے سگنلز کو بلاک کر دیتا ہے جب کہ جنرل اینستھیزیا مکمل بے ہوشی طاری کر دیتا ہے، جس سے بڑے آپریشنز کے دوران کوئی درد محسوس نہیں ہوتا۔
ہمارا دماغ قدرتی طور پر درد کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کا راز پیری ایکوڈکٹل گرے (پی اے جی) نامی ایک چھوٹے سے دل کی شکل کے حصے میں چھپا ہوا ہے، جو دماغ کے مرکز میں پایا جاتا ہے۔ پی اے جی کا کام درد کے سگنلز کو دبانا ہوتا ہے تاکہ دماغ میں درد کا احساس کم یا بالکل ختم ہو جائے۔ جنگ کے دوران اگر ایک فوجی زخمی ہو جائے اور اسے شدید درد محسوس ہو تو وہ اپنی جان بچانے کے لیے بھاگنے سے قاصر ہو سکتا ہے۔ لیکن پی اے جی کی مداخلت سے وہ وقتی طور پر درد کو کم کر سکتا ہے۔
یہی رجحان ہماری روزمرہ زندگی میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ کبھی آپ نے گرم برتن پکڑا ہوگا اور فوراً محسوس کیا ہوگا کہ یہ بہت زیادہ گرم ہے لیکن اس کے باوجود آپ اسے چولہے پر رکھ دیتے ہیں اور درد برداشت کرلیتے ہیں۔ یہ بھی پی اے جی کے ذریعے پیدا ہونے والا قدرتی اینستھیزیا ہو سکتا ہے، جو آپ کے ہاتھ کو فوری ردعمل سے روکتا ہے تاکہ کھانا یا برتن نہ گرے۔
پی اے جی اور دیگر حصوں میں اینکیفالنز (enkephalins) نامی قدرتی کیمیکلز پیدا ہوتے ہیں جو مورفین جیسے طاقتور درد کش اثرات رکھتے ہیں۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ لمبے عرصے تک رہنے والا دائمی درد اس وقت پیدا ہو سکتا ہے جب یہ قدرتی سسٹم صحیح طریقے سے کام نہ کرے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کچھ قدرتی عوامل جیسے ورزش، تناؤ، خوراک اور جسمانی قربت ہمارے دماغ کے درد کش نظام کو متحرک کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ریسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ ورزش کرنے سے اینکیفالنز خارج ہوتے ہیں جو پٹھوں میں درد کو کم کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات ورزش کو درد کے علاج کے طور پر تجویز کیا جاتا ہے۔
امریکہ میں فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے حال ہی میں Journavx نامی ایک نئی دوا کی منظوری دی ہے جو نوسیسپٹرز کو بلاک کر کے درد کے سگنلز کو دماغ تک پہنچنے سے روک دیتی ہے۔ یہ ایک غیر نشہ آور دوا ہے جو مورفین اور فینٹینائل جیسے خطرناک نشہ آور ادویات کے متبادل کے طور پر کام کر سکتی ہے۔
درد ایک پیچیدہ اور مکمل طور پر نہ سمجھ آنے والی کیفیت ہے لیکن سائنسدانوں کی تحقیق اس راز کو کھولنے میں کامیاب ہو رہی ہے کہ دماغ خود کو کیسے شفا دیتا ہے۔ مستقبل میں ایسے علاج ممکن ہو سکتے ہیں جو درد کو قدرتی طور پر دبانے کے عمل کو بہتر بنا سکیں جس سے ہمیں طاقتور نشہ آور ادویات پر انحصار کم کرنا پڑے۔