شیر افضل مروت: جے یو آئی سے پی ٹی آئی تک کا 8 سالہ سیاسی سفرمتنازع کیوں؟

اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی اور رہنما شیر افضل مروت کو عمران خان کی ہدایت پر پارٹی سے نکال دیا گیا ہے، انہیں پی ٹی آئی کارکن اور رہنما مشکل وقت کا ساتھی قرار دیتے رہے ہیں، تاہم ان کی سابق حکمراں پارٹی سے وابستگی تضادات اور اندرونی اختلافات کا شکار رہی۔
شیر افضل مروت کون؟
شیر افضل مروت خیبر پختونخوا کے ضلع لکی مروت میں دور فتادہ اور پسماندہ علاقے بیگو خیل میں 4 اپریل 1971 کو ایک مذہبی رجحان رکھنے والی سیاسی خاندان میں پیدا ہوئے، قریبی ساتھیوں کے مطابق شیر افضل کا خاندان مذہبی رجحان رکھتے ہوئے جمعیت علما اسلام سے وابستی رہا ہے۔
ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں سے ہی حاصل کرنے کے بعد شیر افضل مروت نے انٹر جماعت تک ڈی آئی خان سے حاصل کی، بعد ازاں پشاور یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری اور اسی ضمن میں مزید پڑھائی کے لیے بیرون ملک بھی گئے۔
قریبی دوستوں کے مطابق شیر افضل مروت بچپن سے ہی تقریر کرنے کے شوقین تھے اور ضلعی سطح پر تقریری مقابلوں میں حصہ لیتے تھے جبکہ یونیورسٹی دور میں طلبا سیاست میں بھی سرگرم رہے، صحافت سے دلچسپی رکھتے ہوئے یونیورسٹی دور میں ایک انگریزی اخبار کے ساتھ بھی وابستہ رہے۔
کا خیال ہے کہ انھوں نے مشکل میں کارکنان کا سرگرم کرنے اور سیاسی سرگرمیوں کو شروع کرنے میں ایک کردار ادا کیا تھا۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد شیر فضل مروت عدالتی نظام کا حصہ بن گئے اور جوڈیشل آفیسر تعینات ہو گئے اور بعدازاں چیف جسٹس افتخار چوہدری کے دور میں ڈیپوٹیشن پر وفاق میں ہاؤسنگ آفیسر بھی تعینات رہے ہیں۔
سیاسی سفر کا آغاز
شیر افضل مروت نے اپنے والد کے نقش قدم پر سیاسی سفر کا آغاز اپنے علاقے لکی مروت سے ہی کیا، ان کے والد مقامی سیاسی رہنما تھے اور مقامی انتخابات میں حصہ لے چکے تھے، شیر افضل مروت نے اپنی سیاسی سفر کا آغاز جمعیت علما اسلام ف سے 2008 میں کیا اور 2017 تک اسی جماعت سے وابستہ رہے، لیکن جے یو آئی ف سے 9 سالہ سیاسی وابستگی کے دوران لکی مروت کی سطح تک محدود رہے کسی خاص مقام تک نہیں پہنچ سکے۔
اس دوران انہیں انتخابات میں حصہ لینے کا کبھی موقع نہیں ملا اور شاید یہی وجہ ہے کہ جماعت سے ناراضی کا آغاز ہوا جو 2017 میں علیحدگی پر منتج ہوا، جب انہوں نے جماعت کی قیادت پر کڑی تنقید کے بعد جے یو آئی ف چھوڑنے کا اعلان کیا۔
پی ٹی آئی میں شمولیت
شیر افضل مروت 2017 میں جے یو آئی سے راہیں جدا کرنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی، اس وقت وہ کچھ خاص مقبول نہیں تھے، 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر پہلی بار حصہ لیا مگر کامیابی مقدر نہیں بنی۔
شیر افضل مروت 2023 تک پی ٹی آئی میں فرنٹ لائن پر نہیں تھے، سال 2023 میں جب پارٹی مشکلات کا شکار ہوئی تو شیر افضل بھی نمایاں طور پر منظر عام پر نظر آنے لگے اور انہیں پہلی بار پارٹی کی مرکزی سطح پر عہدہ ملا جب بانی چیئرمین عمران خان نے انہیں سینیئر نائب صدر تعنیات کیا، جس کے بعد انہوں نے قومی سطح پر مقبولیت کے جھنڈے گاڑے۔
9 مئی کے واقعات کے بعد جب پی ٹی آئی زیر عتاب آئی اور مزکری رہنما یا تو گرفتار ہوئے یا گرفتاری کے ڈر سے روپوش ہوگئے تو شیر افضل مروت کو موقع ملا اور وہ کھل کر میدان میں آئے اور اپنے متنازع اور مزاحیہ بیانات کی وجہ سے نوجوانوں میں مشہور ہونے لگے اور ان کے چاہنے والوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔
مشکل وقت کے ساتھی
9 مئی کے بعد پی ٹی آئی کارکن جب گھروں تک محدود ہو گئے تھے اس وقت شیر افضل مروت نے کارکنوں کو سرگرم کرنے کا فیصلہ کیا اور کنونشن منعقد کرنا شروع کیے، شیر افضل مروت بڑے شہروں میں بھی گئے جہاں کارکنوں نے باہر نکل کر ان کا استقبال کیا، انہیں ہجوم راغب کرنے میں کمال حاصل ہوتا گیا۔
پی ٹی آئی خیبر پختونخوا کے صدر جنید اکبر نے انہیں مشکل وقت کا ساتھی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی کوشش ہو گی کہ شیر افضل مروت پارٹی میں رہیں۔
تضادات اور اختلافات
شیر افضل مروت اپنے دوٹوک بیانات اور صاف گوئی کی وجہ سے اکثر تضادات کا شکار رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کے پارٹی میں اندرونی اختلافات بھی بڑھتے چلے گئے، کچھ رہنماؤں اور کارکنوں کا ماننا ہے کہ پارٹی کے اندر شیر افضل مروت کے خلاف سازشیں ہوئی ہیں۔
وہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان تک درست معلومات نہیں دی گئیں اور انہیں بدنام کیا گیا، شیر افضل مروت کی جانب سے امریکا اور سعودی سے متعلق بیانات نے بھی انہیں مشکل سے دوچار کیا اور عمران خان نے بھی ان بیانات سے پارٹی کو لاتعلق کیا۔
شیر افصل مروت اس وقت سخت تنقید کی زد میں آئے جب ایک ٹی وی شو کے دوران ان کا لیگی رہنما کے رہنما کے ساتھ جھگڑا ہوگیا اور بات ہاتھا پائی تک پہنچ گئی، جبکہ میڈیا سے گفتگو کے دوران کا ان کا جملہ ’پروگرام تو وڑ گیا‘ زبان زد عام ہوگیا۔