حکومت آئی ایم ایف کو مطمئن کرنے کے لیے پیشگی اقدامات بھی کرتی رہی ہے . آئی ایم ایف پروگرام معطل ہونے کے بعد حکومت نے پیٹرول اور یوٹیلٹی کے نرخوں میں اضافہ بھی کیا . اس کا حکومت نے یہ جواز پیش کیا کہ پاکستان کی نسبت دیگر ممالک میں نرخ بلند ہیں . کووڈ کے دوران جب تجارتی سرگرمیاں نسبتا سست تھیں تو روپیہ ڈالر کے مقابلے میں مستحکم رہیں . تاہم 2021کے آغازسے روپے کی قدر میں نشیب و فراز کا سلسلہ شروع ہوا، اور پھر مختلف وجوہات کی بنا پر ڈالر کی مانگ میں اضافے کے ساتھ روپے کی قدر گرتی چلی گئی . کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ برآمدات کے فروغ کے نقطہ نظر سے کرنسی کی لچکدار شرح مبادلہ ضروری ہے . اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا وزارت خزانہ سے آزاد ہونا ضروری ہے . لچکدار شرح مبادلہ کے مثبت نتائج آنے میں وقت درکار ہوگا . روپے کا اوور ویلیو ہونا درآمدات کو ارزاں اور برآمدات کو مہنگا کردیتا ہے جس کی وجہ سے تجارتی خسارے میں بھی نمایاں اضافہ ہوجاتا ہے . اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ روپے کی قدر میں گراوٹ کے باوجود برآمدات کے مقابلے میں درآمدات نمایاں طور پر بڑھ جاتی ہیں . روپے کی قدر میں کمی بیشی نے صنعتی سرمایہ داروں کو مشکلات سے دوچار کردیا ہے کیوں کہ وہ غیریقینی صورتحال کا شکار ہیں . مختصرا یہ کہ سیاسی عدم استحکام اقتصادی غیریقینی میں اضافہ کررہا ہے . برآمدات بڑھانے کے لیے ملک میں برآمداتی مصنوعات سرپلس ہونی چاہییں . سوال یہ ہے کہ روپے کی قدر میں گراوٹ کب برآمدات میں اضافے کا باعث بنے گی . . .
کراچی(قدرت روزنامہ)گزشتہ ماہ اکتوبر کے دوران سیاسی عدم استحکام میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے . جبکہ اقتصادی محاز پر آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کی بھی خبریں آرہی ہے .
متعلقہ خبریں