ورلڈ بینک کے تحت پاکستان میں 40 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری، وزیراعظم کا اظہار تشکر
عالمی بینک اور پاکستان کی شراکت داری گزشتہ 7 دہائیوں پر محیط ہے، شہباز شریف

اسلام آباد (قدرت روزنامہ)وزیراعظم شہبازشریف نے ورلڈ بینک کے تحت پاکستان میں 40 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پر تشکر کا اظہار کرتے ہوئے اسے خوش آئند قرار دے دیا۔
وزیرِاعظم شہباز شریف سے عالمی بینک کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹرز کے وفد نے ملاقات کی، جس میں وزیر اعظم نے وفد کا پاکستان آمد پر خیرمقدم کیا۔
انہوں نے کہا کہ عالمی بینک اور پاکستان کی شراکت داری گزشتہ 7 دہائیوں ہر محیط ہے، عالمی بینک کے تعاون سے پاکستان میں تعمیر و ترقی کے حوالے سے متعدد بڑے منصوبے بنے، جنہوں نے ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان نے عالمی بینک کے ساتھ شراکت داری سے استفادہ کیا ہے، عالمی بینک نے 2022 کے سیلاب کے دوران پاکستان میں متاثرہ لوگوں کی بھرپور مدد کی، عالمی بینک کے حالیہ کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک کے تحت پاکستان میں 40 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی، جو خوش آئند ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ 20 ارب ڈالر سے پاکستان میں صحت، تعلیم، ترقیِ نواجوانان اور دیگر سماجی شعبوں میں مختلف منصوبوں سے ترقی کا نیا باب کھلے گا، آئی ایف سی کے تحت پاکستان کے نجی شعبے میں 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے ملکی معیشت کا پہیہ تیزی سے گھومے گا، ہم عالمی بینک کے حکومت کی پالیسیوں پر اعتماد کے شکر گزار ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کا ادارہ جاتی و معاشی اصلاحات کا پروگرام تیزی سے جاری ہے، ملک کی معیشت صحیح سمت اور ترقی کی جانب گامزن ہے تاہم ملکی معیشت کی پائیدار ترقی کے لیے ابھی مزید سفر طے کرنا ہے، معیشت کی بہتری کا سہرا ٹیم کی کوششوں کو جاتا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ملکی برآمدات، ترسیلات زر میں اضافہ ہو رہا ہے، شرح سود کم ہونے سے پیدواری شعبے میں سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے، کرپشن کو کنٹرول کرنے کے لیے نظام میں شفافیت لا رہے ہیں، ایف بی آر کی اصلاحات میں ڈیجیٹائیزیشن پر کام ترجیحی بنیادوں پر جاری ہے جبکہ بجلی شعبے کی اصلاحات سے بجلی کی بلاتعطل فراہمی اور خسارے میں کمی لا رہے ہیں۔
شہباز شریف نے کہا کہ ایس آئی ایف سی کی بدولت ملک میں سرمایہ کاری کے لیے پر کشش ماحول فراہم کیا گیا ہے، جو تمام اسٹیک ہولڈرز کی شرکت کے منفرد نظام کے تحت کام کرتا ہے، حکومت نے قرضوں کے بجائے سرمایہ کاری اور شراکت داری ترجیح ہے۔
عالمی بینک کے وفد نے پاکستان کے جاری اصلاحاتی پروگرام پر عملدرآمد کی تعریف کی اور کہا کہ پاکستان میں حکومت کے جاری اصلاحات کے پروگرام کے مثبت نتائج موصول ہو رہے ہیں، جو خوش آئند امر ہے۔ وزیرِاعظم کی قیادت میں پاکستان کی معاشی اصلاحات کا سفر تیزی سے جاری ہے۔
وفد نے حکومت کے توانائی، صنعت و برآمدات، نجکاری، محصولات و دیگر شعبوں میں اصلاحاتی اقدامات کی تعریف کی۔
یاد رہے کہ ورلڈ بینک کے نو (9 )ایگزیکٹیو ڈائریکٹرز پاکستان کے دورے پر آئے ہیں اور وہ ورلڈ بینک میں دنیا کے مختلف ممالک کے پورٹ فولیو کے نگران ہیں۔ وفد پاکستان میں معاشی ترقی کے منصوبوں اور سرمایہ کاری کے بارے میں تبادلہ خیال کرے گا۔
اجلاس میں وفاقی وزرا احسن اقبال، احد خان چیمہ، سردار اویس خان لغاری، ڈاکٹر مصدق ملک، وزرا مملکت علی پرویز ملک، شیزہ فاطمہ خواجہ، وزیرِ اعظم کی کوآرڈینیٹر رومینہ خورشید عالم، سینیٹر شیری رحمن، رکن قومی اسمبلی نفیسہ شاہ، وزیرِ اعظم کی نمائندہ برائے پولیو پروگرام عائشہ رضا فاروق اور متعلقہ اعلی حکام نے بھی شرکت کی۔
عالمی بینک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرز کی دو دہائیوں بعد پاکستان آمد
پاکستان کو 40 ارب ڈالر کے معاشی ترقیاتی فریم ورک پرعملدرآمد کے جائزے کیلئے عالمی بینک کا وفد اسلام آباد پہنچ چکا ہے، حکام وزارت خزانہ کے مطابق ورلڈ بینک وفد کی وزیراعظم سمیت دیگر حکام سے ملاقاتیں شیڈول ہیں۔
ذرائع کے مطابق عالمی بینک گروپ کے نو ایگزیکٹو ڈائریکٹرز پر مشتمل ایک اعلیٰ سطحی وفد پیر کے روز پاکستان پہنچا، جو تقریباً 20 سال بعد ملک کا دورہ کر رہا ہے۔
یہ وفد پاکستان کے اقتصادی ترقیاتی منصوبوں، سرمایہ کاری کے مواقع اور حال ہی میں منظور شدہ 40 ارب ڈالر کے کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک (CPF) کے مؤثر نفاذ کے حوالے سے حکومتی حکام سے تبادلہ خیال کرے گا۔
ذرائع کے مطابق، عالمی بینک کے یہ ایگزیکٹو ڈائریکٹرز، جو 88 رکن ممالک کی نمائندگی کرتے ہیں، وزیراعظم، وزیر خزانہ، وزیر اقتصادی امور، وزیر منصوبہ بندی اور وزیر توانائی سے ملاقات کریں گے۔ اس دوران پاکستان کی معیشت، سرمایہ کاری کے مواقع اور انفراسٹرکچر میں بہتری پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
اسلام آباد میں مصروفیات کے بعد، وفد خیبرپختونخوا، سندھ اور پنجاب کا بھی دورہ کرے گا، جبکہ بلوچستان کے نمائندوں سے بھی ملاقات کرے گا۔ ان صوبائی دوروں کا مقصد مقامی ترقیاتی چیلنجز اور مواقع کا جائزہ لینا ہے تاکہ عالمی بینک کی پائیدار اقتصادی ترقی کی حکمت عملی کو مؤثر بنایا جا سکے۔
مزید برآں، وفد کاروباری شخصیات، ماہرین تعلیم اور سول سوسائٹی کے نمائندوں سے بھی ملاقات کرے گا۔ عالمی بینک گروپ میں انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ ایسوسی ایشن (IDA)، انٹرنیشنل بینک فار ری کنسٹرکشن اینڈ ڈویلپمنٹ (IBRD)، انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن (IFC)، ملٹی لیٹرل انویسٹمنٹ گارنٹی ایجنسی (MIGA) اور **انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس (ICSID) جیسے پانچ بڑے مالیاتی ادارے شامل ہیں، جو عالمی اقتصادی پالیسیوں کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق یہ دورہ اس پس منظر میں خاص اہمیت کا حامل ہے کہ عالمی بینک کے نئے کنٹری انگیجمنٹ فریم ورک کے تحت پاکستان کا سی پی ایف ماڈل دیگر ممالک کے لیے ایک مثال بن گیا ہے۔ اس اسٹریٹجک شراکت داری کا مقصد معیشت کو مستحکم کرنا، نجی شعبے کی ترقی کو فروغ دینا اور پاکستان بھر میں بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے بنایا گیا سی پی ایف عالمی بینک ہیڈکوارٹر میں خاص توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے، اور دیگر ممالک بھی اسے اپنی معاشی ترقی کے لیے ایک ماڈل کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
دورے کے دوران ایگزیکٹو ڈائریکٹرز کاروباری منصوبے تیار کرنے اور ان کے مؤثر نفاذ پر توجہ دیں گے، جس سے پاکستان کی اقتصادی ترقی کے لیے عالمی بینک کی طویل مدتی وابستگی مزید مستحکم ہوگی۔
وفد میں شامل نمایاں شخصیات
عبدالحق بدجاوی (الجزائر) – آٹھ ممالک کی نمائندگی
زینب احمد (نائیجیریا) – جنوبی افریقہ اور انگولا کی نمائندہ
بیٹریس ماسر (سوئٹزرلینڈ) – وسطی ایشیا اور سوئٹزرلینڈ کی نمائندہ
رابرٹ بروس نکول (آسٹریلیا) – 14 ممالک، بشمول جنوبی کوریا، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے نمائندہ
ٹریسا سولبس (اسپین) – میکسیکو اور کوسٹاریکا سمیت سات جنوبی امریکی ممالک کی نمائندہ
پال بونمارٹن (فرانس)
لونخوللیکو ماگاگولا (ایسواتینی) – 21 افریقی ممالک، بشمول تنزانیہ، زمبابوے، کینیا اور ایتھوپیا کی نمائندہ
مارلین سوزی نزینگاؤ (وسطی افریقی جمہوریہ) – 23 افریقی ممالک کی نمائندہ
توقیر شاہ (پاکستان) – پاکستان اور سات دیگر ممالک کے نمائندہ
یہ گروپ عالمی بینک گروپ کی کمپنی سیکرٹری اور نائب صدر مرسی ٹیمبون کے ہمراہ ہے۔
یہ دورہ پاکستان اور عالمی بینک کے درمیان تعاون کو مزید مضبوط کرنے کی علامت ہے، جس کے نتیجے میں ملک کے اہم ترقیاتی منصوبوں کے لیے مالی اور تکنیکی مدد میں اضافے کی توقع کی جا رہی ہے۔