پاکستان میں غیر ملکی نیٹ ورک کی سمز کیخلاف کریک ڈاؤن کیوں؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاکستان میں غیر ملکی موبائل نیٹ ورکس کی جاری کردہ سمز کے استعمال کا بڑھتا ہوا رجحان قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے لیے دردِ سر بنتا جارہا ہے کیونکہ جہاں ان سمز کے استعمال سے ملک کی سیکیورٹی کو خطرات لاحق ہورہے ہیں، وہیں دوسری جانب لوگ ان سموں کو سوشل میڈیا مونیٹائزیشن کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان میں برطانوی سم کے ذریعے ٹک ٹاک، واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا ایپ کی مونیٹائزیشن ممکن ہے کیونکہ پاکستان میں گنتی کی چند ہی سوشل میڈیا ایپس کی مونیٹائزیشن کا آپشن موجود ہے۔
پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ کی جانب سے ملک بھر میں غیر ملکی سمز کی خرید و فروخت کیخلاف کارروائی کی جارہی ہے۔
گزشتہ ہفتے ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے ایڈیشنل ڈائریکٹر وقار الدین سید نے پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ پاکستان میں غیرقانونی موبائل سمز کا نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی مختلف سائبر کرائمز میں بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔
ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے کے مطابق سائبر کرائم کی تفتیش کرنے والی ٹیموں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ برطانیہ کی سمز ان جرائم کے لیے خاص طور پر پسندیدہ ہیں، اب تک 44 افراد کو گرفتار کرکے 8 ہزار 363 انٹرنیشنل سمز برآمد کی جاچکی ہیں۔
ان غیر ملکی نیٹ ورکس کی جاری کردہ سمز مارکیٹ میں بڑی آسانی سے دستیاب پائی گئی ہیں، جہاں ان کی پری ایکٹیویشن اور کم قیمتیں انہیں خریداروں کے لیے مزید پرکشش بناتی ہیں۔
غیر ملکی نیٹ ورکس کی سمز کا استعمال کیوں مقبول ہے؟
غیر ملکی نیٹ ورکس کی سمز کی خرید وفروخت سے وابستہ راولپنڈی کے رہائشی خرم شاہد نے بتایا کہ پاکستان میں غیر ملکی سمز کے استعمال کی کئی وجوہات ہیں، سب سے بڑی وجہ ان سمز کے ذریعے سستے نرخوں پر کالز اور ڈیٹا پیکجز کی دستیابی ہے۔
خرم شاہد کے مطابق خاص طور پر اگر غیر ملکی سمز کسی دوسرے ملک میں سستی اور بہتر سروس فراہم کر رہی ہوں، تو پاکستانی شہری وہ سم خرید کر استعمال کرنا پسند کرتے ہیں۔
’اس کے علاوہ، ان سمز کے ذریعے بین الاقوامی کالز اور ٹیکس فری سروسز تک رسائی ممکن ہوتی ہے، جو پاکستانی موبائل نیٹ ورک سے کہیں زیادہ سستی پڑتی ہیں۔‘
آج کل سوشل میڈیا کی وجہ سے لوگوں میں ان سمز کا رجحان بہت زیادہ بڑھ چکا ہے اور اس کی وجہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی مونیٹائزیشن ہے کیونکہ غیر ملکی لوکیشن کی وجہ سے سوشل میڈیا سے کمائی کے ذرائع میں اضافہ ممکن ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی یعنی پی ٹی اے نے غیر ملکی سمز کے استعمال کے خلاف مختلف اقدامات کیے ہیں، 2018 میں پی ٹی اے نے غیر ملکی سمز کے استعمال کو محدود کرنے کے لیے ایک نیا قانون نافذ کیا تھا جس کے تحت غیر ملکی سمز کو پاکستانی سرزمین پر فعال ہونے سے روک دیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ، تمام غیر ملکی سمز کو پاکستانی نمبر کے ساتھ رجسٹر کرانے کی شرط بھی عائد کی گئی تھی تاکہ ان کی شناخت ممکن ہو سکے۔ حکومت کا مقصد اس عمل کے ذریعے دہشت گردی کی منصوبہ بندی اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں کے لیے ان سمز کا استعمال روکنا تھا۔
اسی ضمن میں گزشتہ ہفتے پی ٹی اے اور ایف آئی اے نے غیر قانونی موبائل سم فروخت کرنے والوں کے خلاف ملک بھر میں کریک ڈاؤن کا آغاز کیا ہے۔
ترجمان پی ٹی اے کے مطابق ایبٹ آباد، اسکردو، پشاور، لاہور اور سیالکوٹ سمیت مختلف شہروں میں چھاپے مار کر متعدد مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا۔
پی ٹی اے کی جانب سے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ غیر ملکی سم کارڈز کی ترسیل اور فروخت کو روکنے کے لیے سخت ریگولیٹری اقدامات کیے جارہے ہیں، خلاف ورزی کے مرتکب افراد کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
ایف آئی اے کے ایک اہلکار نے بتایا کہ پاکستان میں غیر ملکی نیٹ ورکس کی جاری کردہ سمز کا استعمال سیکیورٹی کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکا ہے، دہشت گرد تنظیمیں اور دیگر جرائم پیشہ گروہ ان سمز کا استعمال اپنے مقاصد کے لیے کرتے ہیں۔
’غیر ملکی سموں کی شناخت اور نگرانی نہ ہونے کی وجہ سے ان کے ذریعے کالز، میسجز، اور دیگر کمیونیکیشنز کو ٹریک کرنا مشکل ہو جاتا ہے، اس کے نتیجے میں سیکیورٹی ایجنسیاں دہشت گرد حملوں، فون سکیمز اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں کے بارے میں بروقت اطلاعات حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *