پاکستانی نوعمر زنیرہ قیوم صوبہ بلوچستان میں بچیوں کی تعلیم کی چیمپیئن کے طور پر سامنے آگئی

کوئٹہ (قدرت روزنامہ)پاکستان کے رقبہ کے لحاظ سے سب سے بڑے اور قدیم سرداری نظام کی جکڑ بندیوں میں الجھے صوبہ بلوچستان کی 14 سالہ لڑکی کو سرداری نظام کے اس ماحول میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ایک وکیل کے طور پر سامنے آنا پڑا ہے۔ اس کی انہی کوششوں کو سراہتے ہوئے ‘یونیسیف’ نے اس مہینے لڑکیوں کے لیے نوجوان وکیل کا نام دیا ہے۔
صوبہ بلوچستان جہاں کے سردار روایتی طور پر سینکڑوں اور ہزاروں ایکڑ زرعی زمینوں کے مالک اور اربوں کھربوں پتی سمجھے جاتے ہیں، ان کے زیر سایہ چلنے والے صوبہ میں بچیوں میں شرح خواندگی انتہائی کم درجے میں ہے۔
واضح رہے صوبہ بلوچستان میں بھی پاکستان کے باقی صوبوں کی طرح تعلیم کا محکمہ صوبائی سیبجیکٹ کے طور پر موجود ہے اور اس صوبے کی خاص روایت یہ ہے کہ اس کا منتخب وزیراعلیٰ شاید ہی کبھی غیربلوچ ہوا ہو۔ تاہم بلوچ بچیوں کی تعلیم بھی کبھی کسی کی ترجیح نہیں رہی ہے۔
صوبہ بلوچستان کے صنعتی شہر حب سے تعلق رکھنے والی 14 سالہ زنیرہ قیوم اس ماہ کے دوران اختتام ہفتہ پر ایک آٹو رکشہ سے اتریں اور صبح سویرے اپنا سبز و سفید رنگ کا سکارف درست کرتے ہوئے ‘گلوبل اسلامک پبلک ہائی سکول’ میں داخل ہوئیں۔ یہ صوبہ بلوچستان کے ایک چھوٹے سے شہر کے وسط میں واقع سکول ہے۔
زنیرہ قیوم بچیوں میں شرح خواندگی میں اضافے کے علاوہ ماحولیاتی امور کے لیے ایک ابھرتے ہوئے وکیل کی طرح کام کر رہی ہے۔ پچھلے ہفتے ‘یونیسیف’ نے اس نوعمر بچی کو دونوں شعبوں کے لیے ‘یوتھ ایڈووکیٹ فار گرلز’ کے طور پر نامزد کیا ہے۔
یاد رہے ‘یونیسیف’ بچوں کے لیے انسانی بنیادوں پر کام کرنے والا اقوام متحدہ کا ایک ذیلی ادارہ ہے۔
زنیرہ قیوم چار بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہے۔ جس نے 2022 میں ‘یونیسیف’ پالیسی کے تحت ریسرچ چیلنجز کو قبول کیا اور موسمیاتی تبدیلیوں کے سیلابوں نیز گرمی کی آنے والی مختلف لہروں کے حوالے سے تحقیق کو اپنا موضوع بنایا۔ اس کی ان تحقیقات کو انعام پانے والی تحقیقات میں شامل کیا گیا۔
زنیرہ قیوم نے کہا کہ وہ ایک چھوٹے سے گاؤں زہری سے آرہی ہے۔ جہاں پر اسے اس عالمی سطح کے پروگرام کے لیے اپنے مشن کے لیے جانا آسان نہیں تھا۔ لیکن میں نے اپنے خوابوں کو ترک نہ کرنے کا ارادہ کرتے ہوئے زہری میں اپنے مشن کو آگے بڑھانے کی کوششوں میں حصہ لیا۔
بلوچستان جہاں بےشمار مسائل کا اکثریتی آبادی کو سامنا ہے۔ اس میں ایک ننھی سی آواز تعلیم کے میدان میں کس حد تک کامیابی حاصل کر سکتی ہے اس کا اندازہ فی الحال نہیں کیا جا سکتا کہ بچیوں کی تعلیم کی ترجیح صوبے کے بڑوں اور خصوصاً سرداروں کے نزدیک کسی بھی صورت ابھی تک اہمیت نہیں پا سکی۔
زنیرہ قیوم کے اپنے سکول کے پرنسپل عبدالرازق ہیں۔ وہ زنیرہ کی ان کاوشوں کے بہت معترف تھے اور کہہ رہے تھے کہ اس کمسنی میں اس نے تعلیم کے لیے جو ذمہ داری اور چیلنج قبول کیا ہے یہ غیرمعمولی ہے۔ اس کے والدین ، اساتذہ اور کلاس فیلوز کے لیے یہ لمحہ بڑا فخر کا لمحہ تھا جب اسے ‘یونیسیف’ کی طرف سے ‘یوتھ ایڈووکیٹ’ کا ٹائٹل دیا گیا۔’