جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سمندر چیرا تھا، وہاں سے سائنسدانوں نے حیرت انگیز دریافت کرلی


قاہرہ(قدرت روزنامہ)سائنسدانوں نے بحیرۂ احمر کی تہہ میں قدرتی “موت کے جال” دریافت کیے ہیں، جو زندگی کے لیے مہلک ثابت ہو سکتے ہیں۔ سائنسدانوں کو بحیرۂ احمر کے خلیج عقبہ میں تقریباً چار ہزار فٹ گہرائی میں کھارے پانی کے تالاب ملے ہیں، جو عام سمندری پانی کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ نمکین اور آکسیجن سے محروم ہیں۔ ان خصوصیات کے باعث ان تالابوں میں داخل ہونے والی کسی بھی جاندار مخلوق کے زندہ بچنے کے امکانات تقریباً معدوم ہو جاتے ہیں۔
ڈیلی سٹار کے مطابق ماہرین کی ٹیم نے ان تالابوں کو “نیوم برائن پولز” کا نام دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ دریافت نہ صرف بحیرہ احمر کے کھارے پانی کے تالابوں کی جغرافیائی حد کو وسیع کرتی ہے بلکہ موسمی اور زمینی تبدیلیوں کے اشارے محفوظ رکھنے کے لیے بھی ایک منفرد ماحولیاتی ماحول فراہم کرتی ہے۔
خلیج عقبہ اپنی منفرد ارضیاتی خصوصیات کی وجہ سے ہمیشہ ایک معمہ رہی ہے۔ اس کی گہرائی اوسطاً 900 میٹر جبکہ زیادہ سے زیادہ 1850 میٹر تک جا سکتی ہے۔ یہاں آتش فشانی سرگرمیاں اور غیر معمولی درجۂ حرارت کے اتار چڑھاؤ بھی دیکھے گئے ہیں۔ یہ سمندری پٹی مصر کے جزیرہ نما سینا کو سعودی عرب سے الگ کرتی ہے۔ یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر بعض ماہرین کا ماننا ہے کہ یہی وہ مقام ہو سکتا ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم سے بچانے کے لیے بحیرۂ احمر کو چیر کر راستہ بنایا تھا۔
اگرچہ ان انتہائی کھارے تالابوں میں زیادہ تر زندگی کے پنپنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں، تاہم سائنسدانوں نے یہاں انتہائی سخت حالات میں زندہ رہنے والے مائیکرو جاندار دریافت کیے ہیں۔ ان جانداروں کو “ایکسٹریموفائل پروکاریوٹس” کہا جاتا ہے، جو شدید درجہ حرارت، دباؤ، نمکیات، تیزابیت یا تابکاری والے ماحول میں بھی باآسانی زندہ رہ سکتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ “موت کے جال” دراصل زمین پر ابتدائی زندگی کی بہترین مثال ہیں اور ان کا مطالعہ ہمیں نہ صرف زمین پر زندگی کے آغاز کے بارے میں آگاہی دے سکتا ہے بلکہ دیگر سیاروں پر پانی کی موجودگی اور زندگی کے امکانات کی تلاش میں بھی مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *