اللہ کو میرا ٹکے ٹکے کا محتاج ہونا پسند نہ تھا، ایک بچی کے ساتھ اجنبی ملک میں تنہا عورت کی ویٹر سے بینک مینیجر تک کے سفر

اسلام آباد (قدرت روزنامہ)اس دنیا کے ہر انسان کی داستان دوسرے سے مختلف ہوتی ہے کچھ لوگ اپنی قسمت میں آنے والی مشکلات کے سامنے سر جھکا لیتے ہیں جبکہ کچھ افراد نہ صرف ان سے لڑتے ہیں بلکہ ان کا مقابلہ کر کے ایسی مثالیں قائم کر دیتے ہیں جو دوسروں کے لیے ہمت و حوصلے کا باعث ہوتی ہیں- ایسی ہی ایک داستان ارم نامی خاتون نے سوشل میڈيا پر شئير کی ان کے مطابق شادی سے قبل وہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں اچھی تنخواہ پر کام کر رہی تھیں مگر جس طرح ہر بیٹی کے والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی بیٹی اپنے گھر کی ہو جائے تو ارم کے گھر والوں نے بھی ان کی شادی کر دی۔

گھر بسانے کی خواہش اور کامیاب ازدواجی زندگی کے لیے ارم نے نوکری چھوڑ دی اور پوری کوشش کی کہ وہ اپنے گھر کے اندر ایک اچھی بیوی اور بہو بن کر رہیں۔ ساڑھے تین سال کے اس عرصے میں اگرچہ ان کو معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑا مگر انہوں نے یہی کوشش کی کہ ہر طرح سے گزارا کر لیں اس دوران ان کو اللہ نے ایک بیٹی سے بھی نواز دیا- مگر سسرال والوں کے رویے میں کسی بھی قسم کی بہتری نہیں آئی یہاں تک کہ ان کو اس دوران اپنی جان مال اور عزت خطرے میں پڑتی محسوس ہوئی تو انہوں نے شوہر سے سسرال والوں سے علیحدہ رہنے کی درخواست کر دی- مگر ان کے شوہر نے ان کے اس مطالبے کو سنجیدگی سے نہ لیا جس پر ساڑھے تین سال کے گیپ کے بعد انہوں نے ایک بار پھر سے نوکری کی کوشش کی-

لوگوں نے ان کا بہت مذاق بنایا کہ اتنے گیپ کے بعد اچھی نوکری کیسے مل سکتی ہے مگر انہوں نے ہمت نہ ہاری اور ایک مہینے میں ہی ایک بڑی آرگنائزیشن میں نہ صرف نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئیں بلکہ اسی دوران شہر کے پوش علاقے میں ایک فلیٹ کرائے پر لے کر اپنی بیٹی اور اپنے شوہر کے ساتھ علیحدہ گھر میں بھی شفٹ ہو گئیں- اس کے بعد ارم نے اپنی کہانی بیان کر تے ہوئے 2013 کے بارے میں بیان کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی بچی کے ساتھ بہتر مستقبل کے لیے آسٹریلیا شفٹ ہو گئيں جہاں وہ اپنی بیٹی کے ساتھ تنہا تھیں۔ یہاں انہوں نے اس حوالے سے نہیں بتایا کہ اس سفر میں ان کےشوہر ان کے ساتھ کیوں نہ تھے اور ان کے درمیان علیحدگی ہو چکی تھی یا کچھ اور تاہم ان کی کہانی میں اس کا ذکر نہیں ہے بلکہ انہوں نے آسٹریلیا میں اپنی پہلی نوکری کے حوالے سے بیان کیا- آسٹریلیا میں کافی مہینوں کی بے روزگاری کے بعد اخراجات پورے کرنے کے لیے ایک ریسٹورنٹ میں ویٹر کی نوکری قبول کرلی ریسٹورنٹ کے مینیجر نے ان کو سپروائزر کے حوالے کر دیا جس نے ان سے میزيں اور کرسیاں صاف کرنے کو کہا- مگر ارم کو یہ محسوس ہوا کہ وہ اس کام کے لیے نہیں بنائی گئی ہیں انہیں کچھ بڑا کرنا ہے اس وجہ سے اس کام کو انکار کر کے گھر آگئيں اور دو نفل صلوۃ حاجات پڑھ کر اللہ سے مدد مانگی-

اسی دوران انہیں ایک فون کال موصول ہوئی جس میں انہوں نے کہا کہ اگر بنک میں نوکری کرنی ہے تو رابطہ کریں جہاں دو مہینے کی ٹریننگ کے بعد آسٹریلیا کے سب سے بڑے بنک میں نوکری مل گئی جو کہ چھ مہینے کے بعد پکی بھی ہو گئیں- جس کے بعد انہیں اس برانچ کے سارے کیش کی ذمہ داری سونپ دی گئی اور وہ اس ترقی کے بعد ایک کمرے کے مکان سے تین کمروں کے بڑے مکان میں اپنی بیٹی کے ساتھ شفٹ ہو گئیں اور ان کو اب اس بنک میں نوکری کرتے ہوئے سات سال ہو گئے ہیں- اس حوالے سے انہوں نے اپنے ساتھ 2018 میں پیش آنے والے واقعات کے حوالے سے بھی بتایا ہے جب کہ ان کے دائيں پیر میں اچانک گرنے کی وجہ سے شدید تکلیف ہو گئی تھی جس کی وجہ سے وہ تین مہینوں تک بستر پر پڑی رہی تھیں- مگر پھر اپنے عزم اور حوصلے کے ساتھ انہوں نے نہ صرف اس مشکل کا سامنا کیا بلکہ اپنے عزم و ہمت سے اس بیماری کو شکست دے کر دوبارہ سے نوکری جوائن کر لی- ارم کی یہ داستان ان تمام خواتین کے لیے ایک مثال ہے جو تقدیر سے تو گلہ کرتی ہیں مگر اپنی حالت بدلنے کے لیے خود کوشش کرتی نظر نہیں آتی ہیں-