کیا تاجکستان سے پانی بلوچستان لانا ممکن ہے؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)صدر پاکستان آصف علی زرداری نے تاجکستان سے پانی لاکر بلوچستان کو سرسبز بنانے کی خوشخبری تو سنا دی ہے لیکن پانی اور واخان کوریڈور پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین اسے زمینی حقائق کے برعکس کہہ کر سیاسی بیان قرار دے رہے ہیں۔
کچھ روز قبل پاک چائنا انسٹی ٹیوٹ میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت آصف علی زرداری نے گوادر کو صاف پانی فراہم کرنے کی خوشخبری سنائی جو ان کے مطابق تاجکستان سے چترال لا کر پھر گوادر پہنچایا جائےگا۔
آصف علی زرداری نے شرکا کو بتایا کہ اس حوالے سے ایک فزیبلٹی رپورٹ بھی تیار کی گئی ہے، جس میں متحدہ عرب امارات کا تعاون بھی شامل ہے، اور پھر اسے چین سے بھی شیئر کیا گیا ہے۔
’تاجکستان سے پائپ لائن سے پانی لایا جائے گا‘
صدر آصف علی زرداری نے اس حوالے سے کچھ زیادہ تفصیلات تو نہیں بتائیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ گوادر تک صاف پانی کی پائپ لائن بچھائی جائے گی۔ آصف علی زرداری نے اشارہ دیا کہ اس منصوبے میں چین کی مدد ہوگی اور رپورٹ کو چین کے ساتھ شیئر کیا جا چکا ہے۔
پشاور زرعی یونیورسٹی کے شعبہ واٹر ریسورس مینجمنٹ کے پروفیسر ڈاکٹر محمد زبیر کے مطابق تاجکستان سے پانی لانا ایک خیالی منصوبہ ہے۔
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ انہیں فزیبلٹی کے حوالے معلومات نہیں تاہم تاجکستان سے پانی پاکستان لانا کئی لحاظ سے ممکن نہیں۔ ’ایک تو تاجکستان سے بلوچستان کا فاصلہ بہت زیادہ ہے، اور اس صورت حال میں پانی لانا ممکن نہیں لگ رہا۔‘
’یہ ایک سیاسی بیان ہے‘
آبی امور کے ماہر محمد زبیر کے مطابق تاجکستان سے بلوچستان تک پانی واخان کوریڈور سے لانا ہوگا جو افغانستان کا حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی سرد اور پسماندہ علاقہ ہے۔ ان کے مطابق کسی دوسرے ملک سے باضابطہ معاہدے کے بغیر پانی نہیں لایا جا سکتا۔
ڈان سے وابستہ سینیئر صحافی منظور علی کے نزدیک بھی تاجکستان سے پانی لانے کا منصوبہ محض خیالی ہے، جو زمینی حقائق کے مطابق ممکن نہیں۔ ’شاید صدر زرداری واخان کوریڈور میں زمینی حقائق سے واقف نہیں ہیں۔ واخان میں ابھی تک روڈ رسائی نہیں ہے آپ اتنا بڑا منصوبہ وہاں کیسے شروع کریں گے۔‘
منظور علی نے کہاکہ واخان کوریڈور سے پاکستان پانی لانے کے لیے افغانستان کی رضامندی ضروری ہے، جسے اعتراض ہو سکتا ہے کیوں کہ تاجکستان کے دریاؤں سے افغانستان بھی استفادہ کرتا ہے۔
منظور علی نے بتایا کہ بغیر معاہدے کے کسی ملک سے پانی نہیں لایا جا سکتا اور کوئی ملک آسانی سے راضی بھی نہیں ہوتا۔ ’اگر تاجکستان سے پانی لائیں گے تو پنچ دریا کا رخ موڑنا ہوگا جو آسان نہیں ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ دریا کا رخ موڑنا سب سے مہنگا اور مشکل ترین کام ہے اور اس کے لیے بلین ڈالرز درکار ہوں گے۔ ’دریا کابل کا رخ اٹک کی طرف ہے جو چینتر سے شروع ہوتا ہے، آپ اس کا رخ پنجکوڑہ کی طرف نہیں موڑ سکتے، اور اگر ممکن بھی ہوا تو بلین ڈالرز کا خرچہ آئے گا۔‘
2 ہزار کلومیٹر پانی کی پائپ لائن
تاجکستان سے بلوچستان تک 2 ہزار کلومیٹر سے زیادہ کا فاصلہ ہے، اور آصف علی زرداری کے مطابق پانی پائپ لائن کے ذریعے لایا جائےگا۔ محمد زبیر اور منظور علی دونوں کا خیال ہے کہ پاکستان جیسے غریب ملک کے لیے اس منصوبے کو مکمل کرنا ممکن نہیں لگ رہا۔
محمد زبیر نے بتایا کہ پاکستان نے بڑی مشکل سے 8 کلو میٹر طویل لواری ٹنل بنایا ہے جس پر اب بھی کام مکمل نہیں ہوا جبکہ تاجکستان سے پانی لانے کے لیے ایسے کئی ٹنل بنانے ہوں گے۔
ان کے مطابق گوادر کو پانی پاکستان کے کسی اور حصے سے بھی فراہم کیا جا سکتا ہے جو تاجکستان سے لانے کے مقابلے میں سستا ہوگا۔
کیا پائپ لائن سے پانی لاکر گوادر میں پانی کا مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے؟
آبادی کے تناسب سے گوادر کو اس وقت 40 لاکھ گیلن پانی کی ضرورت ہے، جبکہ آنے والے سالوں میں اس میں کئی گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔ گوادر میں پانی کی ضرورت کو پورا کرنے کی خاطر سمندر کے پانی کو صاف کرنے کے لیے پلانٹ بھی لگایا گیا ہے جبکہ سمال ڈیم کے ذریعے 151 کلومیٹر طویل پائپ لائن بچھائی جائےگی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *