کیا حکومت نے تنخواہ دار اور کم آمدنی والے طبقات کو بڑا ریلیف دینے کا فیصلہ کرلیا؟

اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاکستان میں ہر حکومت کاروباری افراد سے ٹیکس لینے میں ناکام رہی ہے، ریونیو ہدف کے لیے ہمیشہ تنخواہ دار طبقے پر بوجھ ڈالا جاتا ہے۔ موجودہ حکومت نے بھی تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کے بوجھ میں اضافہ کیا، تاہم اب حکومت نے تنخواہ دار اور کم آمدن طبقے کو بڑا ریلیف دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ صدر آصف علی زرداری 10 مارچ کو تنخواہ دار اور کم آمدنی والے طبقے کے لیے بڑی مراعات کا اعلان کریں گے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق صدر نئے پارلیمانی سال کے آغاز پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں حکومت کی طرف سے اہم اعلانات کریں گے، جن کی یقین دہانی موجودہ حکومت کے دوسرے سالانہ بجٹ میں کرائی جائے گی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان میں تنخواہ دار طبقے نے گزشتہ برس 285 ارب روپے ٹیکس کی مد میں جمع کرائے۔ اور اب تخمینہ لگایا گیا ہے کہ جون تک تنخواہ داروں سے وصولی 577 ارب روپے تک پہنچ جائےگی۔ حکومت نے پہلے 7 ماہ میں تنخواہ داروں سے 285 ارب روپے ٹیکس وصول کیا، اور یہ رقم گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 100 ارب روپے زیادہ ہے۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے تنخواہ داروں پر اضافی بوجھ ڈالا گیا ہے، آئی ایم ایف کے اہداف حاصل کرنے کے لیے تنخواہ دار طبقے کو قربانی کا بکرا بنا دیا گیا جبکہ ری ٹیل، ہول سیل، زراعت اور رئیل اسٹیٹ سمیت دیگر سیکٹرز سے کم وصولی ہورہی ہے۔
معاشی ماہرین نے ٹیکسوں کی زیادہ سے زیادہ شرح 20 فیصد تک محدود رکھنے کی سفارش کی ہے۔ ماہرین نے تجویز دی ہے کہ ماہانہ ایک لاکھ 20 ہزار روپے آمدن پر ٹیکس چھوٹ ہونی چاہیے۔
وفاقی وزیرخزانہ ومحصولات سینیٹر محمد اورنگزیب نے رواں ماہ 20 فروری کو پاکستان ریٹیل بزنس کونسل سے خطاب میں اعتراف کیا تھا کہ مینوفیکچرنگ، خدمات اور تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں کا بوجھ غیر متناسب ہے اور (ٹیکس ادائیگی کے حوالے سے) زراعت، ریئل اسٹیٹ اور ریٹیل کے شعبوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
وفاقی وزیر خزانہ نے رواں ماہ 23 فروری کو لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بھی تنخواہ دار طبقے پر بوجھ کم کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں اس پر سوچیں گے۔ بجٹ سے پہلے ہی کاروباری حضرات سے ملاقاتیں شروع کر دی ہیں، ایف بی آر میں اصلاحات پر بھی کام کر رہے ہیں، تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسز کا بوجھ ہے جسے آنے والے بجٹ میں کم کرنے کا سوچیں گے۔