ٹرین میں خوف کا عالم تھا، ڈر کے مارے ہم سیٹوں کے نیچے چھپ گئے تھے، عینی شاہدین


کوئٹہ (قدرت روزنامہ)حملہ آوروں نے مسافروں کو ٹرین سے اترنے کا کہا جس پر چند افرد نے انکار کیا لیکن میں نے سوچا کہ اگر انہوں نے ہمیں قتل کرنا ہوگا تو یہیں کردیں گے۔‘ یہ درد بھرے جملے ہیں اس مسافر کے جو کوئٹہ سے پشاور جانے والی اس جعفر ایکسپریس میں سوار تھا جسے منگل کی دوپہر عسکریت پسندوں نے درہ بولان میں واقع مشکاف کے قریب سرنگ نمبر 8 میں یرغمال بنایا۔
یرغمال بنائی جانے والی جعفر ایکسپریس کو چھڑوانے کے لیے سیکیورٹی فورسز اور حملہ آوروں کے درمیان مقابلہ جاری ہے جبکہ سیکیورٹی فورسز کے ذرائع کے مطابق اب تک 17 حملہ آوروں کو مار گرایا گیا ہے جبکہ 104 مسافروں کو بھی رہا کروا لیا گیا ہے۔
رہا ہونے والے مسافروں میں 58 مرد، 31 خواتین اور 15 بچے شامل ہیں جنہیں مال بردار ریل گاڑی کے ذریعے مچھ ریلوے اسٹیشن منقتل کردیا گیا ہے جہاں انہیں کو طبی امداد سمیت خوراک فراہم کی جارہی ہے۔
ڈرے سہمے مسافروں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے اس خوفناک داستان کی آنکھوں دیکھا حال بتاتے ہوئے کہا کہ ٹرین نے پنیر ریلوے اسٹیشن سے چند دور کی مسافت طےکی تو اس دوران ایک روز دار دھماکا ہوا جس سے ٹرین لرز اٹھی، دھماکے کے فوراً بعد فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا جس کے بعد لوگوں کی چیخ و پکار شروع ہوگئی اور جان بچانے کے لیے مسافر سیٹوں کے نیچے چھپ گئے۔ فائرنگ کا سلسلہ رکا تو مسلح افراد ٹرین میں داخل ہو گئے۔
عینی شاہد نے بتایا کہ مسلح افراد نے مسافروں کو ٹرین سے اترنے کا کہا جس پر میں اپنی فیملی کے ہمراہ ٹرین سے اتر گیا۔ اس وقت میں نے یہ سوچا کہ اگر اندر آکر انہوں نے مارنا شروع کیا تو ہم کیا کریں گے بس اسی خیال کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنی فیملی کے ساتھ ٹرین سے اتر گیا۔ ٹرین سے اترنے بعد انہیں نے ہمیں چھوڑ دیا اور کہا کہ پیچھے مڑ کر مت دیکھیں۔
ایک اور عینی شاہد نے میڈیا کو واقعہ کے بارے میں تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ مسلح افراد ٹرین میں داخل ہوئے اور مسافروں کو کہا کہ ڈبہ خالی کریں ہم اسے جلائیں گے۔ پھر ہم وہاں سے نکلیں اور سوچا کہ وہاں بھی مرنا ہے یہاں بھی مرنا ہے۔ حملہ آوروں نے ہمیں کہا کہ آپ لوگ یہاں سے چلے جاؤ۔ پھر وہاں سے ہم چار گھنٹے پیدل چلے اور پنیر پہنچے۔
واضح رہے کہ یرغمال بنائی جانے والی اس ٹرین میں 400 سے زائد مسافر سوار تھے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *