سوال یہ ہے کہ سپر ٹیکس مقصد کے مطابق خرچ ہوئے ہیں یا نہیں، جسٹس جمال خان مندوخیل کے ریمارکس


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی آئینی بینچ نے سپر ٹیکس کخلاف دائر مختلف درخواستوں پر سماعت کی۔
نجی کمپنیوں کے وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سپر ٹیکس کا مقصد واضح تھا، اس ٹیکس سے تباہ ہونے والے علاقوں کی بحالی کے لیے استعمال کرنا تھا، 2015 سے کسی بھی جگہ کوئی تفصیلات نہیں دی گئی کہ کتنا ٹیکس اکھٹا کیا گیا اور کہاں خرچ کیا۔
مخدوم علی خان کے مطابق ایک ڈی بی دوسری ڈی بی کے احکامات پر عملدرآمد کرنے کی پابند ہے، اس کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر بھی عملدرآمد نہیں کیا گیا، جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کل اس طرح کوئی ایکٹ آتا ہے اسے دونوں ایوانوں سے پاس کروا لیا جاتا ہے تو کیا ایکٹ بنے گا۔
وکیل مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ ایکٹ پاس کرانے کے لیے پہلے مناسب پالیسی بنانا ہوتی ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ کیا آپ نے کراچی اور پشاور کے عدالتی فیصلوں کو دیکھا ہے، جس پر مخدوم علی خان بولے؛ کراچی اور پشاور کے عدالتی فیصلوں میں وکلا کے دلائل ایک جیسے ہیں۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ انکم ٹیکس آرڈیننس سیکشن 2 کی شق 6 پڑھ لیں، جس پر مخدوم علی خان نے بتایا کہ ٹیکس آرڈیننس میں انکم ٹیکس، ایڈیشنل ٹیکسز شامل ہیں، جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ ٹیکس کی تعریف کو مدنظر رکھنا چاہیے جن میں ایف بی آر کا ذکر بھی موجود ہو۔
وکیل مخدوم علی خان کا موقف تھا کہ انکم ٹیکس آرڈیننس آئین میں بھی واضح ہے، آرڈیننس کے سیکشن ٹو شق 63 میں ایسا نہیں ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل بولے؛ یہاں سوال یہ ہے کیا ٹیکس واضح کیے گئے مقصد کے مطابق خرچ ہوئے ہیں یا نہیں۔
سپر ٹیکس کیخلاف کیس کی سماعت سپریم کورٹ نے کل تک ملتوی کردی ہے، نجی کمپنیوں کے وکیل مخدوم علی خان کل بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *