بلوچستان میں جبر کا نظام ہے، 17مارچ 2005کے بعد حالات بدستور خراب ہیں، جمیل اکبر بگٹی


کوئٹہ(قدرت روزنامہ)شہید نواب اکبر بگٹی کے صاحبزادے نوابزادہ جمیل اکبر بگٹی نے کہا ہے کہ 17 مارچ 2005 سانحہ ڈیرہ بگٹی کو 20 سال کا عرصہ گزرنے کے بعد بلوچستان سے سرکار کی رٹ ختم ہوتی جارہی ہےبلوچستان کے مسئلے کا واحد حل صوبوں کی لسانی بنیادوںپر ازسرنو حد بندی کرکے اقوام متحدہ کی نگرانی میں ریفرنڈم کرایا جائے کہ بلوچ قوم پاکستان کے ساتھ یا اپنی الگ ریاست کی حیثیت میں رہنا چاہتے ہیںاپنے جاری کردہ بیان میں انہوں نے کہا کہ 17 مارچ 2005 کے ڈیرہ بگٹی سانحہ سے قبل فوجی ڈکٹیٹر اور اس کی اسٹیبلشمنٹ کا خیال تھا کہ بلوچستان کا سیاسی اور قبائلی شخصیت نواب اکبر خان بگٹی ہیںجو بلوچستان کے حقوق ننگ و ناموس اس کے ساحل اور وسائل کی جدوجہد کررہا ہے چونکہ اس سلسلے میں انہوں نے بلوچستان کیلئے سنگل پارٹی کا نظریہ بھی تمام قوم پرست پارٹیوں کے سامنے رکھا اور اس بابت باقاعدہ جمہوری وطن پارٹی کے مرکزی دفتر میں سروے بھی شروع کیا گیا تھاجس کے حوصلہ افزا نتائج عام عوام یعنی بلوچ قوم کی جانب سے آنا شروع ہوئے تھے اور اس حوالے سے کاہان ڈیرہ بگٹی سوئی اور ڈیرہ مراد جمالی کے مقامات پر باقاعدہ اجتماعات ہونا بھی شروع ہوئے تھے اور بلوچستان کے کئی قوم پرست رہنمائوں نے خطابات بھی کئے اس خطرے کو بھانپتے ہوئے مقتدر قوتوں نے نواب اکبر بگٹی کے خلاف باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت راستے سے ہٹانے کے لئے سازشیں شروع کیں اور بگٹی قوم کو بدنام کرنے کی خاطر پہلے ڈاکٹر شازیہ جو ایک سندھی عورت تھی جو بگٹی علاقے میں ملازمت کرتی تھیاس کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ بھی سب کو علم ہے اور اس واقعہ میں ملوث کیپٹن حماد کو سرعام بے قصور قرار دیکر اپنے منصوبے کو آگے بڑھایا پھر مارچ 2005 میں جنرل مشرف نے کوہلو کے مقام پر اپنی موجودگی میں دو تین راکٹ کے گولے چلواکر اس کا الزام میرے والد پر لگایا 17 مارچ 2005 کو باقاعدہ مسلح حملہ کرایا۔ جس کو بلوچستان اور بلوچ تاریخ میں ہمیشہ لکھا جائے گا یہ وہ دن ہے کہ ایک فوجی آمر نے اپنے افواج کے ذریعے پہلا مسلح حملہ نواب محمد اکبر خان بگٹی کے گھر پر کیا ہےجس کا میں خود بھی عینی شاہد ہوں زمینی اور فضائی میزائلوں کے علاوہ بھاری توپیں استعمال کی گئیں خوش قسمتی سے اس دن میرے والد حملے سے اللہ کے کرم سے بال بال بچے البتہ ہمارے بگٹی قبیلے کے 70 سے زائد جس میں ہندو اقلیتی برادری کی بڑی تعداد میں عورتیں اور بچے لقمہ اجل بنے اور سینکڑوں کی تعداد میں لوگ زخمی ہوئےیہ مسلح حملہ 17 مارچ 2005 کو شروع کیا گیا اور سترہ ماہ بعد یعنی 26 اگست 2006 کو انہوں نے نواب محمد اکبر خان بگٹی کو شہید کرکے بظاہر فتح حاصل کی اور اسی دن فوجی جرنیلوں نے آپس میں مٹھائیاں تقسیم کرتے ہوئے ایک دوسرے کو مبارک باد دیںکہ اب بلوچ قوم اور بلوچستان ہمیشہ کیلئے ہمارا غلام رہے گا ہمارے مذموم مقاصد میں سب سے بڑی رکاوٹ نواب بگٹی تھے اس پوری جنگ میں یعنی 17 مارچ 2005 سے لیکر 26 اگست 2006 تک نہ صرف فوجی آمر تنہا فوجی آپریشن کررہے تھے بلکہ پاکستان کے تمام نام نہاد قومی ، مذہبی سیاسی جماعتیں اور حتی کہ نام نہاد قوم پرست(جیب پرست)پارٹیاں بھی اس جرم میں باقاعدہ شامل رہیں ہیںاس فوجی آمر کو ان سب کی آشیر باد حاصل تھی 17 مارچ 2005 کے حملے کے بعد فوجی ڈکٹیٹر کے زیر نگیں پارلیمنٹ کے اراکین بار بار ڈیرہ بگٹی کا دورہ کرتے اور بظاہر میرے والد محترم کی حمایت میں بیانات جاری کرتے رہے لیکن درپردہ وہ مقتدرہ قوتوں کی نمائندگی کررہے تھے صرف اخبارات اور ٹی وی شو میں شعلہ بیانی سے کام لیتے رہے لیکن پارلیمنٹ کے جتنے بھی اراکین نے علاقے کا دورہ کرکے مظالم کو اپنی آنکھوں سے دیکھا لیکن کسی ایک رکن کو بھی غیرت نہ آئی کہ وہ ممبر شپ سے احتجاجا مستعفی ہو(خواہ دکھاوے کیلئے بھی کیوں نہ ہوتی)اس کے علاوہ نام نہاد قوم پرست پارٹیوں نے بھی اپنا رول خوب نبھایادن کی روشنی میں وہ ایک اخباری بیان جاری کرتے اور رات کو سٹی نالے کے پار جاکر اپنے آقائوں سے انعام و کرام حاصل کرتے رہے یہی وہ سترہ ماہ کی باقاہ جنگ ہے جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے آرہا ہےبلوچستان سے مرکزی حکومت یا صوبائی حکومت کی گرفت روز بروز ختم ہوتی جارہی ہےبلوچستان کے کئی اضلاع سے حکومتی رٹ ختم ہوچکی ہے تمام قومی شاہراہیں مقتل بن چکی ہیں حتی کہ اب پوری ریل اغوا ہورہی ہے موجودہ صوبائی وزرا یا اراکین اسمبلی اپنے اپنے حلقوں میں جانے کی ہمت نہیں رکھتے اس لئے کہ انہیں عوام نے نہیں کسی اور نے سلیکٹ کرایا ہےیہ کسی اور کے مزدور ہیں جو بھی ان کے کندھوں پر بیٹھ کر آیا ہے اس نے بھی بلوچستان کے ساتھ وہی ظالمانہ روایہ اپنایا ہے قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین اسمبلی فلور پر تسلیم کررہے ہیں کہ بلوچستان میں سرکاری رٹ ختم ہوتی جارہی ہے اور اب یقین سے کہا جاسکتا ہےکہ جلد ہی پورے بلوچستان سے حکومتی رٹ ختم ہوجائے گی میں نے پہلے بھی کہا ہے اور بار بار کہہ رہا ہوں کہ اس مسئلے کا واحد حل یہ کہ صوبوں کی لسانی بنیادوں پر از سرنو حد بندی کی جائے۔ اور اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ریفرنڈم کرایا جائے کہ آیا بلوچستان کے بلوچ قوم پاکستان کے ساتھ رہنا چاہیں گے یا آزاد ریاست کی حیثیت سے اپنی حکومت بنائیں گے اس کے علاوہ مسئلے کا کوئی حل ہے؟۔ میں 17 مارچ 2005 کے ڈیرہ بگٹی کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *