بلوچ خطہ ریاستی جبر و استحصال کے نشانے پر ہے ، بی ایس او

کوئٹہ(قدرت روزنامہ)بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے اپنی جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان کا خطہ دھائیوں سے ریاستی جبر و استحصال کے نشانے پر ہے جہاں زندگی کا ہر پہلو ظلم و زوراکی سے شدید متاثر ہے،اسی طرح تعلیمی نظام میں بھی پسماندگی عروج پر ہے، بلوچستان بھر میں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ملٹرائزیشن، ہراسانی، تباہ حال انفراسٹرکچرز، جامعات کی بے وجہ بندش، سیاسی عمل پر قدغنوں جیسے تعلیم و طلبہ دشمن پالیسیوں کے نفاز سے طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کو سپوتاڑ کرنے کی نوآبادیاتی سازش قرار دیتے ہیں،اور فوری بنیادوں پر بلوچستان بھر کے تعلیمی اداروں میں اکیڈمک سرگرمیوں کو جدید خطوط پر استوار تعلیمی نظام کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ یونیورسٹی آف بلوچستان و دیگر اداروں میں نا معلوم وجوہات کے بنیاد پر تعلیمی سرگرمیوں میں آنلائن کلاسز کا نظام عمل میں لایا جارہا ہے، جس کی پر زور مذمت کرتے ہیں،ہم سمجھتے ہیں مکمل منصوبہ بندی کے تحت طلبہ کو اجتماعیت و اکھٹ اور بحث و مباحثہ سے دور کرکے انہیں غیر سیاسی و غیر فعال بناکر مزید محکومیت کی جانب دھکیلا جا رہا ہے جس کی وجہ سے تخلیقی صلاحیتوں، حقیقت پسندی اور سیاسی و شعوری جدوجہد کی بیخ کنی کی جارہی ہے،اسی طرح لسبیلہ یونیورسٹی اتھل میں طلبہ کو بک اسٹال لگانے جیسی شعوری عمل کی پاداش میں ریسٹیگیٹ کرنا اور جامعہ تربت کی مختلف ہیل بہانوں سے اکیڈمک سرگرمیوں کو متاثر کرکے طلبہ کو ذہنی اذیت میں مبتلا کیا جارہا ہے،تعلیمی اداروں و شعوری درسگاہوں کو منظم منصوبہ بندی کے تحت تباہ کیا جارہا ہے، جامعات کی انتظامیہ اور محکمہ تعلیم کی غیر سنجیدہ و بچگانہ پالیسیوں کے نفاذ سے آئے روز طلبہ سراپا احتجاج ہیں۔ترجمان نے مزید کہا کہ تعلیمی ادارے بلوچستان میں حقیقی علم کے ساتھ شعوری درسگاہ کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ لہذا بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ہمیشہ کی طرح اپنی شعوری آدرشوں پر عمل پیرا ہو کر شعوری درسگاہوں کا محافظ رہے ہیں اور مستقبل میں بھی ایسی تعلیم دشمن پالیسیوں کے خلاف ہر ممکن جہد جاری رکھنے کا عزم رکھتے ہیں