عارضی این او سی ملنے کے بعد پاکستان میں اسٹارلنک کی سروس کب سے شروع ہورہی ہے اور پیکج کیا ہوگا؟

اسلام آباد (قدرت روزنامہ)وفاقی وزیر آئی ٹی شزا فاطمہ خواجہ نے رواں ہفتے تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام سیکیورٹی اور ریگولیٹری اداروں کی مشاورت سے اسٹارلنک کو پاکستان میں عارضی این او سی جاری ہو چکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سیٹلائٹ انٹرنیٹ جیسے جدید حل سے ملک میں کنیکٹیویٹی میں بہتری آئے گی اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اسٹارلنک کی جانب سے فیسوں کی ادائیگی اور لائسنسگ کی شرائط پر عمل درآمد کی نگرانی کرے گی۔
اسٹارلنک ملک میں کنیکٹیویٹی کے مسائل کو دور کرنے میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگا لیکن اسٹارلنک کی سروسز پاکستان میں کب تک شروع ہو جائیں گی اور اس کی فیس کیا ہوگی؟
اس حوالے سے پی ٹی اے کے ذرائع کا کہنا تھا کہ ابھی اسٹارلنک کو پاکستان اسپیس ایکٹیویٹیز ریگولیٹری اتھارٹی کی جانب سے عارضی این او سی جاری کیا گیا ہے اور پی ٹی اے کی جانب سے لائسنس دینا باقی ہے۔ پی ٹی اے کو کوئی بھی لائسنس دیتے ہوئے زیادہ سے زیادہ 4 ہفتے لگتے ہیں۔ وہ ان 4 ہفتوں میں یا تو لائسنس جاری کر دیتا ہے یا پھر لائسنس منسوخ کر دیا جاتا ہے۔ اس لیے اسٹارلنک کو لائسنس ملنے میں زیادہ سے زیادہ 2 سے 4 ہفتے لگیں گے۔ پی ٹی اے تمام تر پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد ان 2 سے 4 ہفتوں میں لائسنس جاری کر دے گا۔
ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں اسٹارلنک کی سروسز کب سے شروع ہو سکتی ہیں، اس حوالے سے ابھی کچھ واضح نہیں کہا جا سکتا لیکن اگر ٹائم فریم دیکھا جائے تو اگلے 4 سے 6 مہینے میں شروع ہو جائیں گی۔ اتنا وقت اس لیے درکار ہوگا کہ اسٹارلنک کو لائسنس کے بعد سامان لانا ہوگا، پھر اس کو کسٹم کلئیر کروانا ہوگا، اس کے بعد آرتھ اسٹیشنز انسٹال کرنے ہوں گے، ان کی ٹیسٹنگ کرنی ہوگی اور پھر انسٹالیشن اور ٹیسٹنگ کے بعد دوبارہ پی ٹی اے اس کی ٹیسٹنگ کرے گا کہ کسی قسم کی کوئی خلاف ورزی تو نہیں کی گئی۔
ایک سوال کے جواب میں ذرائع کا کہنا تھا کہ اسٹارلنک پیکجز کا ریٹ کمپنی خود طے کرے گی کیونکہ جتنی بھی کمپنیاں ہیں جیسا کہ نیا ٹیل، پی ٹی سی ایل ان کے پیکجز انہوں نے خود طے کیے ہیں۔ پی ٹی اے کا کام صرف چیک اینڈ بیلنس رکھنا ہےکہ کہیں ریٹ مارکیٹ کی نسبت بہت کم یا بہت زیادہ تو نہیں دیا جا رہا جس کی وجہ سے مارکیٹ خراب ہو رہی ہو۔ خود اسٹارلنک کی جانب سے پیکج کی قیمت کبھی 14 ہزار پاکستانی روپے بتائی جارہی ہے اور کبھی 100 ڈالر فی کنیکشن، میرے خیال میں یہ بہت زیادہ قیمت ہے۔ اس لیے اگر عام عوام کی بات کی جائے تو یہ ان کی پہنچ سے دور ہوگا۔ یہ متمول طبقے کے لیے ہوگا۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اسٹارلنک ایک مثبت قدم ہے لیکن امیر طبقے یا پھر ان افراد کے لیے جو دور دراز علاقوں میں رہتے ہیں اور انٹرنیٹ کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ان کے کاروبار کو نقصان پہنچتا ہے۔ ایسے افراد جن کے شمالی علاقہ جات میں ہوٹلز ہیں، کوئی ہسپتال ہے یا پھر کوئی شخص ایک کنیکشن لے کر راوٹر کی مدد سے کچھ مزید کنیکشنز دے دیں تو دور دراز کے علاقوں کے لیے بہت بہترین ثابت ہوگا۔
انہوں نے فیس کے حوالے سے بتایا کہ جب ایک انٹرنیٹ کمپنی مجھے 14 سے 15 ہزار روپے میں 100 میگا بٹس دے رہی ہے تو میں کیوں اتنا مہنگا کنیکشن لوں گا۔ اس لیے شہری علاقوں میں رہنے والے عوام کے لیے اسٹارلنک کی سروسز قابل برداشت نہیں ہیں۔
آئی ٹی ماہر محمد طاہر عمر نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اسٹارلنک سے لوگوں نے بہت سی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں، کیوں کہ ہر نئی چیز جب مارکیٹ میں آتی ہے تو لوگ اس حوالے سے بہت پرجوش نظر آتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو سب سے پہلے اسٹارلنک کو پاکستان کے رولز اینڈ ریگولیشنز کے مطابق آپریٹ کرنا ہوگا۔ ظاہر ہے جب کوئی بھی کمپنی پاکستان کے رولز اینڈ ریگولیشنز میں آئے گی تو وہ ان تمام رولز کی پابند بھی ہوگی۔
طاہر عمر کے مطابق اس لیے لوگوں کے اندر خوش فہمی پیدا ہو رہی ہے کہ شاید اسٹارلنک کے آنے سے انٹرنیٹ بندش سمیت دیگر فائر وال سینسر شپ جیسے تمام معاملات ختم ہو جائیں گے۔ ’یہ محض ایک خوش فہمی سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ہے۔ بظاہر کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔‘
آئی ٹی ماہر طاہر عمر کے مطابق اس معاملے کا دوسرا پہلو اس ٹیکنالوجی کا مہنگا ہونا بھی ہے کیونکہ یہ ہر کسی کی قوت خرید میں نہیں ہوگا، اس صورتحال میں مالی طور پر بہتر افراد تو بہت آسانی سے اسے حاصل کر لیں گے اور ایک واضح تفریق شروع ہو جائے گی۔
’انٹرنیٹ بنیادی ضرورت بن چکا ہے، اب فوڈ پانڈا رائیڈر اور ٹیکسی ڈرائیور سے لے کر بڑی بڑی کمپنیاں انٹرنیٹ پر انحصار کرتی ہیں، اس لیے انٹرنیٹ کی رسائی کو آسان اور بغیر سینسرشپ فراہمی کو ترجیح دینا چاہیے۔‘
پاکستان میں اسٹارلنک کی کیا قیمت طے ہوگی؟ فی الحال اس حوالے سے ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا، ابھی کمپنی کی رجسٹریشن کا مرحلہ طے ہوا ہے، ابھی پالیسی اور دیگر اقدامات کے حوالے سے بہت سی چیزیں رہتی ہیں، جس میں کافی وقت درکار ہوگا، جس کے بعد ہی قیمت کے حوالے سے رائے دی جاسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عمومی طور پر اسٹارلنک کی قیمت ماہانہ 100 ڈالر کے برابر ہوتی ہے، راؤٹر اور ڈش وغیرہ کے ساتھ ساڑھے 500 ڈالر تک پہلی مرتبہ خرچ کرنا ہوتا ہے لیکن ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا کیونکہ کمپنیوں کی جانب سے کبھی کبھار کوئی خصوصی پیکج بھی کم آمدن ممالک کو دیے جاتے ہیں، بصورت دیگر یہ حقیقت ہے کہ اسٹارلنک انٹرنیٹ کے مسائل کا بہت ’مہنگا حل‘ ہے۔
یہ سہولت عام شہری کی پہنچ سے دور ہوگی، پاکستان میں 20 ایم بی کا پیکج 3 ہزار سے 3500 روپے مالیت کا ہوتا ہے، یہاں 100 ڈالر کافی بڑی رقم ہے، اس لیے ایک عام پاکستانی کو اس سے کوئی خاص امیدیں نہیں رکھنی چاہیے۔
ایک عام شہری اسی طرح سست انٹرنیٹ اور متعدد بار شارک کٹنگ کا شکار رہے گا، یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ 2025 پاکستان میں انٹرنیٹ کے حوالے سے کیسا رہے گا؟