مریخ پر اب تک کا سب سے بڑا نامیاتی مالیکیول دریافت

اسلام آباد (قدرت روزنامہ)سانسدانوں نے مریخ پر اب تک کا سب سے بڑا نامیاتی مالیکیول دریافت کرلیا ہے، جس سے مریخ پر زندگی کے آثار معلوم کرنے میں مدد ملے گی۔
ناسا کی خللائی گاڑی روور ’کیوریوسٹی‘ مریخ پر اب تک دیکھا جانے والا سب سے بڑا نامیاتی مالیکیول دریافت کیا ہے، جس سے یہ قیاس آرائیاں ہورہی ہیں کہ آیا سرخ سیارے پر اربوں سال پہلے زندگی کی تخلیق ہوئی تھی۔
تحقیق کی مرکزی مصنفہ اور فرانس کے نیشنل سینٹر فار سائنٹیفک ریسرچ ان دی لیبارٹری برائے ماحولیات اور خلائی مشاہدات سے وابستہ سائنسدان کیرولین فریسینیٹ نے کہا ’ ہمارا مطالعہ یہ ثابت کرتا ہے کہ ہم کے نمونوں کا تجزیہ کرکے ماضی میں مریخ کی سطح پر زندگی کے آثار کا پتا چلا سکتے ہیں۔‘
’کمبرلینڈ نمونہ‘ کے نام سے موسوم نامیاتی مرکبات کو 2013 میں یلو نائف بے پر 3.7 بلین سال پرانے چٹان کے نمونے سے گیل کریٹر کے اندر کھود دیا گیا تھا، جہاں روور 2012 میں لینڈنگ کے بعد سے 20 میل سے زیادہ کا فاصلہ طے کر چکا ہے، جسے ایک قدیم جھیل سمجھا جاتا تھا، جہاں مٹی کے مرکبات پائے جاتے ہیں۔
جبکہ محققین یہ دعویٰ کرنے سے باز رہتے ہیں کہ انہوں نے ایک بائیو سائنٹیچر پایا ہے جس میں مریخ پر زندگی کی موجودگی کی نشاندہی ہوتی ہے، ایک ماہر کا کہنا ہے کہ سائنسی مواد سیارے پر موجود کسی بھی زندگی کی باقیات کی نشاندہی کرنے کا بہترین موقع تھا،کیوروسٹی نے اس راؤنڈ میں بہت بڑے آرگینکس کا پتہ لگایا، خاص طور پر ڈیکین، انڈیکین اور ڈوڈیکین۔
مطالعہ کے شریک مصنف اور ناسا کے گوڈارڈ اسپیس فلائٹ سینٹر میں نمونے اکٹھے کرنے والے سینیئر سائنسدان ڈینیئل گلیوین کا کہنا ہے ’ “اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ مریخ پر گیل کریٹر میں مائع پانی لاکھوں سالوں سے موجود تھا، جس کا مطلب ہے کہ مریخ پر پانی کی جھیلوں کے آثار موجود ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ اہلکار مریخ سے نمونے واپس زمین پر لانے کے لیے ’اگلا بڑا قدم اٹھانے کے لیے تیار ہیں، تاکہ مریخ پر زندگی کے بارے میں بحث کو حل کیا جا سکے۔‘
کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں ارضیات اور جیو کیمسٹری کے پروفیسر جان ایلر نے کہا ہے کہ ’اس مقالے میں رپورٹ کردہ نتائج مریخ پر زندگی کی باقیات کی نشاندہی کرنے کا بہترین موقع پیش کرتے ہیں، لیکن حتمی نتیجنے پر پہنچنے کے لیے ایسے نمونوں کا زمین پر لانا ضروری ہے۔‘