موجودہ بلوچ نسل میر، معتبر، وڈیرہ، نواب اور سردار کی گرفت سے آزاد ہو چکی ہے، گزین مری


کوہلو(قدرت روزنامہ)گزین خان مری نے بلوچستان کی موجودہ صورتِ حال پر اپنا نقطہ نظر پیش کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان طویل عرصے سے ایک جنگی کیفیت میں ہے، جہاں ریاستی جبر اور پرتشدد کارروائیاں کوئی نئی بات نہیں۔ بلوچ عوام پر مظالم، گرفتاریاں، خواتین کے دوپٹے کھینچنا، ان کے بال نوچنا، آنسو گیس کے شیل فائر کرنا اور نہتے شہریوں پر سیدھی گولیاں برسانا ایک مستقل پالیسی کا حصہ ہے۔ یہ مظالم سکندر مرزا کے دور سے لے کر ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو، پرویز مشرف اور آج تک کسی نہ کسی شکل میں جاری ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ بلوچ قوم پر ہونے والے مظالم کی ایک طویل تاریخ ہے۔ نواب نوروز خان کو قرآن کی قسم دے کر پہاڑ سے اتارا گیا اور پھر ان کے بیٹوں سمیت شہید کر دیا گیا۔ بھٹو کے دور میں مریوں کو طیاروں سے نیچے پھینکا گیا، بلوچ عورتوں خصوصاً مری قبیلے کی خواتین کو پنجاب کی منڈیوں میں بیچا گیا۔ ہمیں اپنی ان خواتین کی حرمت بھی عزیز ہے۔ مشرف کے دور میں بلوچستان میں گھروں کو جلایا گیا، ماورائے آئین گمشدگیاں ہوئیں، مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئیں، نواب اکبر بگٹی اور بالاچ مری کو شہید کیا گیا۔ یہ سب واقعات اس استحصالی نظام کی عکاسی کرتے ہیں جو آج بھی برقرار ہے، اور مستقبل میں بھی یہی طرزِ عمل جاری رہنے کا خدشہ ہے۔ آج کے واقعات سوشل میڈیا کے ذریعے زیادہ اجاگر ہو رہے ہیں، مگر ماضی کے بڑے ظلم و جبر کے واقعات، گلوبل کمیونیکیشن نہ ہونے کے سبب، دنیا کے سامنے نہیں آ سکے۔ ہم نہ ماضی کے واقعات کو بھولیں گے اور نہ ہی حال کے مظالم کو نظرانداز کریں گے، بلوچستان کی تحریک اچانک اس سطح تک نہیں پہنچی بلکہ اس کا ایک مضبوط پس منظر ہے۔ یہ بیج ماضی کے اکابرین نے بویا تھا، جن میں آغا عبدالکریم ،نواب نوروز خان، میرسفر خان، یوسف عزیز مگسی، نواب خیر بخش مری اور دیگر نمایاں شخصیات شامل ہیں۔ وہی بیج آج تناور درخت بن چکا ہے، بلوچستان کی سیاسی حیثیت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے گزین خان مری نے کہا کہ کوئی بھی حکومت آئے، پالیسی ایک ہی رہتی ہے۔ جو سلوک بلوچ عوام کے ساتھ ماضی میں ہوا، وہی آج بھی دہرایا جا رہا ہے۔ تاہم، خوش آئند بات یہ ہے کہ آج کا بلوچ نوجوان جاگیرداروں، سرداروں اور قبائلی وڈیروں کی غلامی سے آزاد ہو چکا ہے۔ وہ کمفرٹ زون میں بیٹھے روایتی قبائلی رہنماؤں پر انحصار نہیں کر رہا بلکہ ہر حد تک جانے کے لیے تیار ہے۔ یہ ایک واضح دلیل ہے کہ آج کا بلوچ نوجوان کسی قبائلی جاگیردار کی پکار سے زیادہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی آواز پر لبیک کہے گا۔ نواب خیر بخش مری نے بھی اپنی زندگی کے آخری دنوں میں فرسودہ قبائلی قیادت کے بجائے تعلیم یافتہ بلوچ نوجوانوں کو ترجیح دی تھی، بلوچ قومی تحریک کو اسٹیبلشمنٹ نے پرتشدد کارروائیوں، مسخ شدہ لاشوں اور جبری گمشدگیوں کے ذریعے مزید دوام بخشا ہے۔ آج کی نسل صوبائی خودمختاری کے نعرے سے آگے نکل چکی ہے اور وہ استحصالی نظام سے مکمل نجات چاہتی ہے، بلوچ یکجہتی کمیٹی ایک پُرامن پلیٹ فارم ہے جہاں لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے قانونی اور انسانی حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ ان کے پیاروں کو عدالت میں پیش کیا جائے، انہیں بازیاب کرایا جائے، یا اگر وہ شہید کیے جا چکے ہیں تو کم از کم ان کی شہادت کی اطلاع دی جائے تاکہ ان کے لواحقین نوجوان بیواؤں کو نئی زندگی دینے کا فیصلہ کر سکیں۔ مگر ریاست ان جائز اور قانونی مطالبات کے جواب میں گرفتاریوں، خواتین کے دوپٹے کھینچنے، آنسو گیس کے شیل فائر کرنے اور نہتے شہریوں پر سیدھی گولیاں برسانے جیسے ہتھکنڈے اپنا رہی ہے، گزین خان مری نے کہا کہ ہم نے جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو ہر فورم پر اٹھایا، مگر ریاست اسے سنجیدگی سے لینے کے بجائے مسلسل نظرانداز کر رہی ہے۔ جہاں تک بلوچستان میں فوجی آپریشن کا تعلق ہے، تو یہ کوئی نیا معاملہ نہیں۔ بلوچستان میں آپریشن کبھی رکا ہی نہیں جو اب دوبارہ شروع ہوا ہو۔ یہ کسی نہ کسی شکل میں ہمیشہ جاری رہا ہے اور شاید آئندہ بھی جاری رہے گا، بی وائی سی کی خواتین اور دیگر رہنماؤں کی گرفتاری کی مذمت کے حوالے سے سوال کے جواب میں گزین خان مری نے کہا کہ بلوچستان کے حالات مذمت سے نکل کر مزاحمت تک پہنچ چکے ہیں۔ مذمت محض زبانی جمع خرچ اور خود فریبی سے زیادہ کچھ نہیں ہے،

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *