بلوچ قوم متحد ہو کر جدوجہد کرے بلوچ وومن فورم

تربت(قدرت روزنامہ)بلوچ وومن فورم کے مرکزی سربراہ ڈاکٹر شلی بلوچ نے کہا ہے کہ میں بلوچستان کے مقامی باشندوں سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ بلوچ یکجہتی کمیٹی اس کے رہنماؤں اور تمام مظلوموں کا ساتھ دیں جو اپنے جائز حقوق کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس نازک وقت میں اتحاد ہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے بلوچستان میں امن، استحکام اور انصاف کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
بلوچستان میں بگڑتی ہوئی صورت حال ریاستی جبر اور ناانصافی میں مسلسل اضافے کا اظہار ہے جہاں بلوچ عوام کو ان کی شناخت کی بنیاد پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بی وائی سی کی قیادت بشمول ڈاکٹر مہرنگ بلوچ اور سمی دین پر بے بنیاد مقدمات درج کیے گئے ہیں جو اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ اس ریاست میں قانون نام کی کوئی چیز موجود نہیں بلکہ جبر کا راج ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر جبری گمشدگیاں، ریاستی تشدد، آنسو گیس کی شیلنگ، اندھا دھند فائرنگ اور جھوٹے دہشت گردی کے الزامات بلوچ عوام کے حقوق سلب کرنے کا حل ہوتے تو یہ مسئلہ اسی وقت ختم ہو چکا ہوتا جب ریاست قلات کو 1948 میں زبردستی پاکستان میں شامل کیا گیا تھا۔ لیکن تب سے اب تک مسلسل پرامن انسانی حقوق کی تحریکوں کے خلاف ریاستی کریک ڈاؤن کیا گیا اور موجودہ جبر اسی دیرینہ پالیسی کا تسلسل ہے۔ڈاکٹر شلی بلوچ نے کہاکہ گزشتہ تین دنوں کے دوران تقریباً 200 افراد کو بلاجواز گرفتار کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر مہرنگ بلوچ، سمی دین بلوچ، بیبو بلوچ اور دیگر کے خلاف 3 ایم پی او کے تحت امن و امان میں خلل ڈالنے جیسے الزامات عائد کیے گئے ہیںجو درحقیقت ریاست کی جانب سے بلوچ عوام کی پرامن تحریک کو دبانے کا بہانہ ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس وقت بھی خاص طور پر کوئٹہ میں سرچ آپریشن جاری ہے جن کا مقصد عوام کو خوفزدہ کرنا اور انہیں مزاحمت سے باز رکھنا ہے۔ گزشتہ رات ریاستی اداروں نے گلزادی بلوچ کے گھر پر غیر قانونی چھاپہ مار کر ان کا سامان ضبط کر لیا اور انہیں دھمکی دی کہ وہ اپنی جدوجہد ترک کر دیں۔ اسی طرح گزشتہ روز قمبرانی روڈ سے دو کم عمر لڑکیوں جن میں 17 سالہ مزلفہ قمبرانی بھی شامل ہیں کو اس وقت غیر قانونی طور پر حراست میں لے لیا گیا جب وہ گھر واپس جا رہی تھیں۔بلوچ معاشرے میں ایسے واقعات تشویش ناک ہیں۔ڈاکٹر نے مذید کہا کہ ریاستی ادارے نہیں چاہتے بلوچستان میں امن اور انصاف ہو کیونکہ یہ علاقہ ایک جنگی زون بنا دیا گیا ہے جہاں مختلف عناصر انتشار اور بدامنی سے ذاتی فوائد حاصل کر رہے ہیں۔ ایک پرامن بلوچستان ان کے مفادات کے خلاف ہے اسی لیے وہ جان بوجھ کر حالات کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یہاں تک کہ رمضان کے مقدس مہینے میں بھی ظلم و جبر سے باز نہیں آ رہے اور کسی امتیاز کے بغیر ہر جنس اور عمر کے لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ایسے وقت میں جب ہمیں موجودہ حکومت اور ریاستی اداروں سے کوئی امید باقی نہیں رہی یہ لازم ہے کہ بلوچ عوام ریاستی بربریت کے خلاف اپنی آواز بلند کریں۔ آزادی اور انصاف اس وقت ملے گا جب ہم ایک قوم کے طور پر متحد ہوں گے اور ان تمام عناصر سے اجتماعی طور پر جوابدہی طلب کریں گے جو ہمارے لوگوں پر ظلم روا رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں بلوچستان کے مقامی باشندوں سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ بلوچ یکجہتی کمیٹی اس کے رہنماؤں اور تمام مظلوموں کا ساتھ دیں جو اپنے جائز حقوق کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس نازک وقت میں اتحاد ہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے بلوچستان میں امن، استحکام اور انصاف کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔