اسلام آباد سے لاہور تک کا سفر آدھے گھنٹے میں طے کریں، ایک ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ٹرین تکمیل کےقریب پہنچ گئی
اسلام آباد(قدرت روزنامہ)عرب حکومتوں اور کاروباری کمپنیوں کے اشتراک سے امریکی ٹرانسپورٹ کمپنی ’ورجن ہائپر لوپ‘ کے تحت تیار ہونے والی ویکیوم ٹرین تکمیل کے قریب ہے جو مشرق وسطیٰ میں چلنے والی نہ صرف اپنی نوعیت کی پہلی ٹرین ہوگی بلکہ اس سے خلیجی ممالک کو ملانے والے پہلے ریل نیٹ ورک کا آغاز ہوگا۔ ورجن ہائپر لوپ کی تیار کردہ یہ ویکیوم ٹرین مسافروں کو ایک ہزار کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچائے گی۔پاکستانیوں کے سمجھنے کیلئے اگر یہی ٹرین پاکستان میں چلائی جائے تو اسلام آباد سے لاہور تک کا سفر محض آدھے گھنٹے میں طے ہو سکتا ہے۔ورجن ہائپر لوپ کے سربراہ اور شریک بانی جوش گیگل کا کہنا ہے کہ سعودی دارالحکومت ریاض سے شروع ہونے والے ریل نیٹ ورک کے ذریعے 48 منٹ میں ابو ظبی پہنچایا جا سکے گا۔انہوں نے بتایا کہ اس ٹرین پر دبئی، وہاں سے کویت، جدہ اور نیوم تک کا سفر کرنا ممکن ہوگا۔’ان تمام علاقوں کا سفر کر سکیں گے اور پورے خطے میں ریاض سے کسی بھی مقام تک ایک گھنٹے یا دو گھنٹے سے کم میں پہنچ سکیں گے۔‘
ہائپر لوپ کے چیئرمین سلطان احمد بن سلیم کا کہنا ہے کہ اس دہائی کے اختتام سے قبل اس پہلی کمرشل ٹرین کے انڈیا یا سعودی عرب میں چلنے کی امید ہے۔قطع نظر کہ یہ ٹرین کس ملک میں پہلے چل سکے گی، ویژن 2030 کے تحت شروع ہونے والے ترقیاتی منصوبوں کے باعث سعودی عرب سرمایہ کاری کے لیے ایک پرکشش مقام بن گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ’نیوم ایک نیا شہر ہے اور اس نئے شہر کے ساتھ نئے مواقع بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ یہ جدید ٹیکنالوجی ہے۔ یہ نئی ٹیکنالوجیز کے لیے نئے مواقع پیش کرتا ہے۔‘انہوں نے مزید کہا کہ ’جس رفتار کے ساتھ وہ (علاقوں) کو ملانا چاہتے ہیں، ان کے سسٹینبلٹی مشنز، شہروں کی جدید طریقے سے تعمیر کا منصوبہ، اور وہ لوگوں کو آپس میں ملانے کے لیے مختلف قسم کی ٹیکنالوجی کی تلاش میں ہیں، تاکہ پائیدار ذرائع کے تحت لوگ جلدی اپنی منزل تک پہنچ سکیں، اور ہائپر لوپ اس ویژن پر پورا اترتا ہے۔‘مسافروں اور سامان کی ترسیل کے لیے تیار کردہ ہائپر لوپ کا ماڈل دبئی ایکسپو میں بھی پیش کیا گیا تھا۔ورجن ہائپر لوپ کے سربراہ جوش گیگل نے بتایا کہ گزشتہ سال ہائپر لوپ کے سسٹم پر سفر کرنے والے وہ پہلے شخص تھے جس سے ان کا جوش جذبہ مزید بڑھا۔اس وقت انہیں محسوس ہوا کہ یہ منصوبہ ایسا نہیں جو دس یا بیس سال بعد پایہ تکمیل کو پہنچے بلکہ یہ ابھی ہوگا۔’ہائپر لوپ کی دہائی نامی منصوبے کا خیال اس وقت آیا جب میں اور سارا ہائپر لوپ پر سفر کرنے والے پہلے دو افراد تھے، اور امید ہے مشرق وسطیٰ میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ اس پر سفر کریں گے۔‘